بسم اللہ الرحمن الرحیم
[اس مضمون کےتمام کردار عام معاشرتی مشاہدے پر مبنی ہیں، جس کی کسی شخصیت سے مماثلت محض اتفاقی ہوسکتی ہے]
یہ تحریر لکھنے سے پہلے کئی بار عنوان تبدیل کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ کہیں گستاخی کا فتویٰ نہ لگ جائے، یا الفاظ کی تعبیر میں کوئی زیادتی نہ ہوجائے۔ بہرحال قریب سال بھر کی کشمکش کے بعد آخر کار موقع پاکر اللہ سے دعاء اور مدد طلب کرتے ہوئے اس پر لکھنے کا عزم کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کسی کا بھلا ہو اور نصیحت پکڑنے والے نصیحت پکڑیں۔ اور حالات کو عدل و انصاف کی عینک سے دیکھنا شروع کردیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ والدین کے حقوق اسلام میں عظیم ترین حقوق میں سے ہے کہ جسے اللہ تعالی نے اپنی توحید کے بعد بیان فرمایا ہے۔ یہ تو اتنی واضح حقیقت ہے کہ کسی دلیل کی بھی ضرورت نہيں، دین دار تو دور کی بات بہت سے دنیادار بے دین قسم کے لوگ تک اس کی اہمیت کو جتاتے رہتے ہیں۔
لیکن جس طرح عورتوں پر ظلم معاشرے میں عام ہونے کے سبب سے ان کی حمایت میں بہت سے غلط عزائم رکھنے والے لوگ مردوں کو صرف ذلیل ہی کرتے ہیں قطع نظر اس کے کہ مردوں میں اچھے برے ہوتےہيں جیسا کہ خواتین میں بھی اچھی بری ہوتی ہيں۔
اسی طرح والدین کے ساتھ ظلم اور حق تلفی عام ہونے پر ان کی حمایت میں بہت سے کوتاہ نظر لوگ بے قصور اولاد کو بھی لعن طعن کرتے رہتے ہیں، حالانکہ والدین میں بھی اچھے برے موجود ہوتے ہیں۔
بے شک اولاد کے لیے اس کے والدین جنت یا جہنم لے جانے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ اس طور پر ان کو ان کی اولاد کے زاویے سے دیکھا جائے تو وہ اولاد کے لیے بڑی ہستیوں میں سے ہیں۔
لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہيں کہ والدین اپنے ذات کے اعتبار سے کوئی عظیم ہستی یا جنتی ہیں۔ عین ممکن ہے وہ خود برے کردار کے مالک یا ایمان سے ہی خالی جہنم جانے والے ہوں جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کے والد تھے، جو کافر تھے اور جہنم میں جائيں گے، لیکن والد کے ساتھ حسن سلوک پر جنت والے احکام ابراہیم علیہ السلام پر بھی لاگو تھے۔ جیسے شوہر کے بھی عظیم حقوق ہیں او روہ بیوی کے لیے جنت یا جہنم ہے لیکن فرعون کی بیوی آسیہ رحمہا اللہ کے بارے میں بھی آپ اس طرح سوچ سکتے ہيں۔ اسی لیے قرآن مجید میں واضح طور پر آیا ہے کہ والدین سے اچھا سلوک کرو اگر وہ مشرک بھی ہوں، لیکن شرک اور غلط باتوں میں ان کا کہا نا مانو۔
لہذا کسی کا والدین بن جانا ہی عظیم کارنامہ نہيں ہے جسے بات بے بات جتایا جائے۔ بچے تو جانوروں کے بھی ہوتے ہيں۔کبھی تو بعض لوگوں کی یہ نیت لگتی ہے کہ جلد سے جلد والدین بن جا ئیں اور اپنے حقوق کا بچوں پر دھونس جمائيں! حالانکہ جیسا کہ میں اپنی کچھ تقاریر میں بھی بیان کرتا ہوں کہ اپنے حقوق سے زیادہ فرائض کی پرواہ ہونی چاہیے اور انہیں ادا کرنا چاہیے، جیسا کہ ظالم حکمرانوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کے حقوق انہيں دو، اپنے حقوق اللہ سے مانگ لینا۔ کیونکہ آپ سے فرائض کے بارے میں سوال ہوگا، جبکہ آپ کے حقوق کے بارے میں دوسروں سے سوال ہوگا، تو انسان اپنی فکر کرے۔ اولاد والدین کے حقوق کی اور والدین اولاد کے حقوق کی۔
حالانکہ دیکھا جائے تو دینی اعتبار سے اولاد کے حقوق والدین سے بھی پہلے شروع ہوجاتے ہیں جیسا کہ پیٹ کے بچے کا اس کی ماں کے توسط سے نان نفقہ اور وراثت میں حق وغیرہ، جبکہ دوسری طرف والدین کے حقوق ادا کرنے کے لائق تو بچہ تب ہوگا جب سن شعور تک پہنچے گا۔
چنانچہ اولاد کے حقوق بتانے یا والدین کو سکھانے میں بھی ہمارے ہاں بہت کوتاہی پائی جاتی ہے۔
آخر وہ بھی تو والدین ہی ہوتے ہیں جو ہمارے ملکوں میں اپنی کم سن بچوں سے بھیک منگوا رہے ہوتے ہيں، بلکہ معذور تک بنا کر انہیں معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہوتا ہے کہ وہ معصوم سے بچے انہیں کما کر کھلائيں اور اپنا سب کچھ لٹا دیں۔
ماں کی محبت تو ضرب المثل ہے لیکن ایسی مائيں بھی آپ کو ملیں گی جو بیٹے کی شادی کرواتے ہی اپنی بہو سے سوتن جیسا سلوک شروع کردیں گی، نہ صرف اس کی بلکہ اپنے ہی بیٹے کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دیں گی، جبکہ وہ اپنی بیٹی کے لیے یہی چاہتی ہوں گی کہ اس کا شوہر بلکہ ساس بھی اس کی مٹھی میں رہیں۔ اور اس دوہرے معیار، حسد، بغض، تہمت، بدظنی، جھگڑوں بلکہ سازشوں میں ساری زندگی گزار دے گی، بڑے سے بڑا حادثہ اسے سدھارنے کا سبب نہيں بنے گا۔
ایک طرف تو جوائنٹ فیملی سسٹم کی نحوست بھی ان چیزوں کے لیے بڑا سازگار ماحول فراہم کرتی ہے، ساتھ میں ایک عدد سنجیدگی اور غیرت سے عاری باپ بطور سسر بھی مل جائے جو گھر کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے معاملات کو سلجھانے اور حکمت کے ساتھ سب کے حقوق ادا کرتے ہوئے بنائے رکھنے کی کوشش کرنے کے بجائے نتائج سے لاپراوہ فوراً سازشوں کا شکار اور ایک طرف کی بات سن کے چیخنے چلانے بلکہ گھر سے بےدخل کردینے والا ہو، تو یقین جانیں ایسی اولادوں کی زندگی جیتے جی جہنم بن جاتی ہے۔
لہذا اب اگر آپ کو کہیں اولڈ ہومز میں یا سڑک کنارے بوڑھی ماں جی نظر آئے جو کہتی ہو بچوں نے گھر سے نکال دیا ہے اور آپ کے اندر تصویر کا صرف ایک رخ دیکھنے والا ضمیر جاگ اٹھے یا پھر اس کہانی کو بھی اپنی مشہوری کا ذریعہ بناکر میڈیا پر ڈالنے سے پہلے اچھی طرح تحقیق کرلیا کریں۔ پس پردہ ایسی ایسی کہانیاں ہوتی ہیں کہ آپ کی عقل دنگ رہ جائے گی۔ ابھی کل ہی کوئی خبر پڑھی کہ ساس صاحبہ نے اپنی بہو اور اس کے بچوں کو زہر دے کر مار دیا، بہو بچ گئی بچے مر گئے!
کچھ تو اس حد تک جلن میں آگے چلی جاتی ہیں کہ اپنا دین ایمان بیچ کر جادو ٹونہ تعویذ گنڈہ تک کروانے سے دریغ نہیں کرتیں۔
ہمارے ہاں عام طو رپر دینی طبقہ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتا ہے کہ لوگ ڈراموں سے خراب ہورہے ہیں کیونکہ ان میں ساس بہو اور شوہر بیوی کے ایسے معاملات دکھائے جاتے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ ہم مانتے ہیں کہ کچھ لوگ فواحش و منکرات کے نشر کرنے اور عام کرنے کے ایجنڈے پر بھی چل رہے ہوتے ہیں، لیکن اس سے بھی انکار ممکن نہيں کہ یہ ڈرامے خود ہمارے معاشرے کی عکاسی کررہے ہوتے ہیں، وہ ان ہی سے تاثر لے کر اسے پیش کرتے ہیں جو کہ گھر گھر کی کہانی ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر میں آپ کے سامنے ایک منظر رکھتا ہوں شادی کے بعد ماں جو ایک ساس بن گئی ہو اپنی بہو سے نفرت و حسد کرتی ہو اور اس کے خلاف سازشیں کرکے اسے برا ثابت کرنا چاہتی ہو جس سے اس کے کلیجے کو ٹھنڈ ک نصیب ہوتی ہو۔ دراصل اس کے اسباب میں سے یہ بھی ہوتا ہے کہ ساس یعنی لڑکے کی ماں کو ان کے اپنے شوہر نے شاید زندگی بھر سکھ نہ دیا ہو یا ان کی اپنی بیٹی کے شوہریعنی داماد نے ان کی بیٹی کو خوش نہ رکھا ہو تو اس کا سارا ملبہ بھی اپنی بہو کے ساتھ حسد سے اتارتی ہیں۔ جسے نہ وہ کوئی غلط کام سمجھتی ہیں نہ انہیں یہ کرتے ہوئے کوئی شر و حیاء یا ترس آتا ہے۔
تو میں کہانی کا ایک رخ بتارہا تھا کہ ایسی ماں روز روز کے جھگڑے اور اپنی ہی کسی سازش کے تحت اپنی بہو مع اپنی ہی اولاد یعنی بیٹے کو بلاوجہ کوستی ہوئی ازخود گھر سے نکل جائے ، یا پھر بیٹے کے ادب کے ساتھ والدین کو نصیحت کیے جانے پر یا اپنی بیوی کے جائز حق یا اسے ظلم و زیادتی سے بچانے پر بذات خود ظالم ہونے کے حتی کہ روکنے کے باوجود روٹھ کر گھر سے باہر نکل جائے، اور یہ دلی چاہت رکھے کہ لوگ میری ہی اولاد کو گالیاں دیں کہ کتنی بری اولاد ہے!توبہ توبہ! گھر سے باہر نکال دیا! جبکہ بات اس طرح سے نہیں۔ تو آپ انصاف سے بتائيں اس صورتحال کو آپ کیا نام دیں گے۔ کیا اس پر بھی وہی گھسا پٹا جملہ کسیں گے:
آجکل کی اولاد تو دیکھو، اپنے بوڑھے والدین کو گھر سے نکال دیا!!
بلکہ ایسے ڈرامے بھی آپ کو دیکھنے کو ملیں گے کہ بیٹا آفس گیا ہے، بہو کو خود کھانا بنانے سے روک دیا گیا، لیکن شوہر اور بیٹے کی آمد ہوتے ہی گھر پر رو دھو کرہنگامہ خیز استقبال کہ میں بھوکی مررہی تھی بہو نے کوئی کھانا نہيں بنایا!
بلکہ اکثر تو اپنا گھر آپ کو پاکستانی نیوز چینل کی سنسنی خیز خبروں پر مبنی نشریات سے کم نہیں محسوس ہوگا۔
پھر ایسے لوگوں کا آنسو نکالنا تو بائيں ہاتھ کا کھیل ہے۔ کبھی تو لگتا ہے اپنی زبان حال سے کہہ رہے ہوں کہ ہم تمہیں جہنم میں پہنچا کر ہی دم لیں گے، تجھے پتہ ہے ناں والدین جس سے ناراض ہوں۔۔۔!
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی بات کا مفہوم ہے کہ بعض والدین اتنے برے ہوتے ہيں جو خود اپنی اولاد کو یہ سہولت نہيں دیتے کہ وہ ان کی خدمت اور اچھا سلوک کرکے جنت کمائيں، جان بوجھ کر مشکلات پیدا کرنا، تنگ کرنا، زندگی زہر کرنا تاکہ وہ حقوق چاہ کر بھی ادا نہ کرپائیں اور ایسے والدین کو زمانے کے سامنے اپنی اولاد کو نافرمان اور برا بھلا کہنے کا موقع میسر آتا رہے۔ واقعی جس طرح نیک صالح اولاد ہونا بڑی نعمت ہے اسی طرح سے اچھے والدین بھی بڑی نعمت ہے۔
بہرحال ایسے والدین کو اللہ سے ڈرنا چاہیے، آخر کوئی تو ہو جو والدین کو بھی ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلائے۔ کسی مرد یعنی شوہر و با پ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے کہ (وہ خود کو کتنا ہی اچھا انسان سمجھتا رہے یا اس کے یار اسے باور کرواتے رہیں) لیکن اس کے برے انسان ہونے کے لیے یہ ہی کافی ہے کہ وہ اپنے ماتحت یعنی اپنی فیملی کو ضائع کردے۔ یعنی وہ دین و دنیا کہیں کے نہ رہیں۔
اولاد کے حقوق میں سے ان کے درمیان انصاف کرنا بھی ہے، ایسے بہت سے والدین دیکھنے میں آتے ہیں کہ کوئی ا یک آدھ بچہ بچی عزیز ہوتےہیں باقیوں سے ایسا سلوک کرتے ہيں جیسے وہ ان کی اولاد ہی نہیں، اور زندگی بھر چاہے وہ شادی شدہ ہوجائيں ان کے پوتے پوتیاں آجائيں پھر بھی یہی امتیازی سلوک جاری رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ خود اولاد کے درمیان دشمنی پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ یوسف علیہ السلام کو ان کے والد نبی یعقوب علیہ السلام نے بھی یہ ہی نصیحت کی کہ اللہ نے تجھے تو فضیلت دی ہے بھائیوں کے سامنے ذکر نہ کرنا کہ کہیں تجھ سے حسد کرتے ہوئے کوئی سازش نہ کریں۔ اسی طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابی کو کہا کہ میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا، جب انہوں نے اپنے لاڈلے بیٹے کے نام زمین کرنا چاہی۔ فرمایا: اللہ سے ڈرو! اور اپنی اولاد میں عدل و انصاف کرو۔
واقعی جن والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ اچھا سلوک اور اچھی تربیت رہتی ہے ان ہی کو اچھا سلوک نصیب ہوتا ہے۔ ایسے والدین کو آپ یہ بھی کہتے ہوئے پائيں گے دنیا گول ہے بیٹا، آج تم ہمارے ساتھ یہ سلوک کررہے ہو، کل تمہاری اولاد کرے گی! اس کے جوا ب میں ہم یہ کہتے ہیں: چلیں ٹھیک ہے، کیا یہ دنیا صرف آپ کے وقت سے گول ہوئی ہے، کیونکہ مثال کے طور پر آپ کے مطابق (اگرچہ جھوٹا الزام ہی سہی) ہم نافرمان ہیں اور برا سلوک کرتے ہيں تو آپ کے اس اصول کے مطابق شاید آپ نے بھی یقیناً اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ہوگا اسی لیے ہماری طرف سے آپ کے ساتھ یہ ہورہا ہے! لیکن یہ سن کر ایسے والدین آگ بگولہ ہوجائيں گے اور اسے بے ادبی شمار کریں گے۔
کیونکہ انہیں صرف اپنے مظلوم نہ ہونے کے باوجود مظلومیت سے متعلق باتیں سننا پسند ہيں اور اولاد کے برے نہ ہونے کے باوجود برا ہونے سے متعلق باتیں سننا پسند ہیں، چاہے ا ن کا کوئی دوست اپنی ا ولاد کا رونا رو رہا ہو تو یہ اپنے بارے میں بھی ایسا سوچنا سمجھنا شروع کردیتے ہیں باوجودیکہ ان کی اپنی اولاد ان کے ساتھ اچھا چلتی ہو۔ یہاں تک کہ یہ بھی دیکھا گیا کہ ٹی وی پر والدین کے حقوق اور ان کے ساتھ اولاد کے ظلم کی بات چل رہی ہو تو آواز تیز کردی سنوانے کے لیے، اور کہیں غلطی سے اولاد یا بہو کے حقوق کی بات آئی تو آواز ہی بند کردو، بلکہ چینل ہی تبدیل کردو!
ایسی صورتحال میں کوئی خوف الہی رکھنے والا بندہ بھی سوچتا ہے کہ یہ میرے والدین ہیں یا دہشتگرد ہیں جن سے انسان ڈرتا ہی رہے کہ ہرپل دھڑکا لگا رہتا ہے ایک نئی آزمائش میں ڈالیں گے اور جہنم میں تمہاری سیٹ پکی ہے کی خوشخبری سنائيں گے!
اور تو اور اس قسم کے والدین کو اپنے منہ میاں مٹھو بنتے بھی دیر نہیں لگتی کہ ہم نے تو بڑی خدمت کی اپنے والدین کی اور ایک تم ہو ناخلف اولاد، حالانکہ ہم تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کہ دیکھتے کیا کچھ خدمات اپنے والدین کی انہوں نے بجالائی ہیں، بلکہ بڑے ہوکر آج جب بچپن کے حالات کا دھندلا سا جائزہ لینے کی کوشش کی جاتی ہے تو بات اس کے برعکس ہی ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے والدین کو کس حال میں رکھا ہوا تھا، اور اب صرف اپنی اولاد پر غصہ اتارنے، غلط ثابت کرنے یا حقوق ملنے کے باوجود مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے اپنے اَن دیکھے اور اَن کیے کارناموں کو محض ذلیل کرنے کے لیے سنایا جارہا ہے۔
الغرض اس پر جتنا لکھا جائے کم ہے۔ اللہ تعالی سب کو ہدایت دے، دلوں کو آپس میں ملا کر خلوص عطاء فرمائے۔والدین ہوں یا اولاد سب کو اپنے فرائض کی ادائیگی کی توفیق دے۔کیونکہ تمام لوگوں کے دل اللہ کی انگلیوں کے درمیان ہے وہ انہيں جس طرف چاہے پھیر دے، اور وہ ہی دعاؤں کا سننے والا اور بے حد رحم فرمانے والا ہے۔
آپ نے بالکل صحیح عکاسی کی معاشرتی رویوں کی۔اللہ ہم سب کو بہترین والدین اور بہترین اولاد (صدقہ جاریہ) بننے کی توفیق دیں آمین
ماشاءاللہ بہت عمدہ اور نصیحت آمیز تحریر ۔۔ اللّٰہ آپ کو جزائے خیر دے اور مزید توفیق دے آمین۔
آپ سے گزارش ہے کے اس طرز کی تحریر شوہر کے لیے بھی ہونی چاہیے جس کو صرف اپنے حقوق یاد ہوتے ہیں اور فرائض نہیں۔ ہر وقت صرف مرد کی فضیلت یاد ہوتی ہے ۔
بھترین مضمون ۔ بارک اللہ فیک یا اخی الفاضل
بہت خوب تحریر ۔ ایک قابل غور بات یہ بھی کہ حکمران کے معاملے کی طرح والدین کے معاملے میں بھی خیر ، صبر اور احسان بڑے کی طرف سے شروع ہونے پر معاملات کے بھلائی پر منتج ہونے کے ذیادہ امکانات ہوتے ہیں عقلی طور پر ۔ جبکہ اس کے برعکس بڑی عمر کے والدین تو بچوں ، بے صبروں ، کم عقلوں والی حرکت کریں اور چھوٹے بچے یا نوجوان اولاد بڑی بردباری اور صبر اور دانائی کا مظاہرہ کرے ایسی الٹی گنگا بہنے کا معاملہ کم ہی متوقع ہوتا ہے ۔ جب والدین بڑے ہوکر پختگی کی عمر کے ذیادہ قریب ہوکر بے وقوفی بے صبری نا انصافی کرتے ہیں تو بچے ان کی سے سیکھ کر ان سے بھی بڑھ کر یہ سارے معاملات کریں گے طبعی طور پر ۔ اس کی ایسے بھی مثال دی جاسکتی ہے کہ خیر کے حکمران کی جانب سے شروع ہونے کے امکانات بہت ذیادہ اور عقلی طور پر سمجھ آنے والی بات ہے کہ ایک حاکم اپنی حکومت کی پرواہ نہ کرے اور اپنے مفادات میں وقت ضائع کیے بغیر اس دنیا کے معاملے پر صبر کرکے صحیح قوانین اور انصاف کو نافذ کرے اور کمزوروں نیکوکاروں کے ساتھ رحم کرے تو رعایا بھی اس سے محبت ، تابعداری کرنے لگ جائے اور اس کے شانہ بشانہ کھڑی ہوجائے اس چیز کی کہیں ذیادہ توقع ہے بنسبت اس بات کے کہ حاکم تو اپنے چند پیسے کے مفاد کو نا چھوڑے لیکن عام عوام بڑی تقوی کا مظاہرہ کرے اور لاشیں اٹھا کر مال گنوا کر بے ایمان ترین حاکم کے حکم پر خود بے ایمانی سے دور رہیں ہرگز نہیں ایسا ہونا بہت مشکل ہے بلکہ وہ کہیں گے کہ ہم ظلم ، بے صبری اور بدعنوانی کے لئے اولی ہیں کیونکہ ہماری یہ یہ مجبوریاں وغیرہ ہیں