ہمارے ہاں اگر کسی شخص کو انگریزی نہ آتی ہو تو وہ شرمندہ ہوتا ہے ، جبکہ جو فر فر بول رہا ہو اسے وہ اپنے لیے باعث فخر سمجھتا اور سامنے والا اپنے آپ کو مرعوب محسوس کرنے لگتا ہے۔ حالانکہ ہمیں ہمیشہ تاریخ میں وہ قربانیاں یاد دلائی جاتی ہیں جو انگریز سرکار سے آزادی حاصل کرنے کے لیے برصغیر کے مسلمانوں کو دینی پڑی تھیں۔
کیا صرف اپنے جسم اور زمین کو آزاد کروالینا ہی آزادی ہے یا پھر اپنی روح ، زبان اور تہذیب و تمدن کو بھی؟
اس کے برعکس جب آج کوئی مغربی ممالک سے آیا پاکستانی نژاد ٹوٹی پھوٹی اردو بولتا ہے تو اسے باعث عار نہیں سمجھتا ہے، بلکہ بعض تو اپنے دیس میں ہی پرورش پانے والے جانتے بوجھتے بھی نقلی انگریز بننے کی خواہش میں اردو سے اپنے آپ کو نابلد ظاہر کرکے اسے ایک موضوع تفریح سمجھتے ہيں۔ اور کچھ لوگوں کا تو گزارا ہی نہیں ہوتا جب تک ایک جملے میں اکا دکا اردو کے الفاظ کے ساتھ ملی جلی انگریزی نہ شامل کردیں۔ بعض کو تو دیکھا کہ دینی اسلامی کتب یا بیانات سننے سے یہ کہہ کر بھی کتراتے ہیں کہ اردو مشکل ہے ہمیں انگریزی میں صحیح سمجھ آتا ہے، حالانکہ اگر آج بھی آپ ہمارے سرکاری یا نجی اسکولوں میں نصاب اٹھا کر دیکھ لیں خواہ وہ آکسفورڈ کا ہی کیوں نہ ہو، اس میں ادبی معیاری اردو پہلی جماعت سے ہی سکھائی جاتی ہے، اب اللہ جانے یہ لوگ اردو کے مضمون میں کس طرح کامیاب ہوکر اس درجے پر پہنچے ہیں!
یہاں تک کہ ہمارے ہاں بعض شکست خوردہ سوچ رکھنے والے مولوی اور خطیب حضرات بھی اپنے بیانات میں بلاوجہ زبردستی انگریزی ڈالتے نظر آتے ہيں کہ سامعین کو متاثر کیا جاسکے، یقین جانیں بسا اوقات تو اس قدر پرتکلف انداز اختیار کرتے ہيں کہ سننے والے کو شرم محسوس ہونے لگتی ہے۔
ایک مولوی صاحب کو تو ہم نے سنا کہ ہر بیان میں کہتے ہیں میں کچھ باتيں شئیر کرنا چاہتا ہوں، شکر ہے لائیک اور سبزکرائب کہنے سے رک گئے!
حالانکہ ایک دنیا یہ اصول باور کرواتی ہے کہ کوئی بھی قوم صحیح معنوں میں ترقی اپنی قومی زبان میں ہی کرسکتی ہے۔ چین، جاپان اور بعض عرب ممالک کو ہی دیکھ لیں۔ اور کسی بھی قوم کو تعلیم اپنی مادری زبان میں ہی سمجھ آسکتی ہے۔ مگر یہ ہماری نااہلی، سستی یا غلامانہ ذہنیت سمجھیے کہ آج ستر برس سے زائد ہوچکے مگر ہم اس احساس کمتری سے نہیں نکل پائے ہيں۔
عین ممکن ہے اس میں بیرونی سازشیں بھی ملوث ہوں، جیسا کہ عربی سے جاہل کرکے ہمیں اپنے دین اسلام کی صحیح تعلیمات سے دو رکردیا گیا، اسی طرح دنیا کی بہترین ادبی زبان اردو سے ہمیں محروم کیا جارہا ہے۔ تصور کریں پاکستانی بچے جوان ہوجاتے ہیں پھر بوڑھے ہونے لگتے ہیں مگر انہيں بس گزارے لائق کچھ بازاری طرز کے جملے ہی آتے ہيں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اردو زبان کو اہمیت دیں اور اسے اپنا قابل فخر سرمایہ سمجھ کر اپنے نسلوں میں منتقل کریں، جن جدید علوم میں اردو کے ذریعے کام نہیں کیا گیا اس خلاء کو پر کرنے کی کوشش کریں۔اور اس اردو زبان کو دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح ایک ترقی یافتہ زبان کی فہرست میں لاکھڑا کریں۔
اردو زبان سیکھنے کے لیے ہمارے اردو کور س میں شامل ہوں۔
بارک اللہ فیہ۔ بہت زبردست اور عمدہ علمی مواد ہے ۔