TariqBrohi

Shortcomings in translation, misguidance in religion thumbnail revealing falsehood

ترجمے میں کوتاہی، دین میں گمراہی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مجھے جاننے والے اچھی طرح سے جانتے ہيں کہ  عرصہ بیس سال سے زائد اہل سنت سلفی علماء کرام کی کتابیں، مقالات اور آڈیوز وغیرہ کے عربی سے اردو تراجم کرتا آیا  ہوں۔ اور جیسا کہ کہا جاتا ہے انسان تجربے سے بہت سی چیزیں سیکھتا ہے۔ لہذا اس شعبے میں بھی میں نے پایا کہ بہت سے لوگ دقت نظری سے ترجمہ نہيں کرتے جس کی وجہ سے غلط مفہوم یا کوتاہی رہ جاتی  ہے۔

اسی طرح سے ایسے لوگ جو خود صحیح سلفی عقیدہ و منہج نہيں رکھتے ظاہر ہے وہ ایک سلفی عالم کی صحیح ترجمانی کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

ترجمہ صرف عربی عبارت کا جوں کا توں لفظی ترجمے کرنے کا نام نہیں۔ بلکہ اس میں پس منظر کا بھی بخوبی علم ہونا ضروری ہے۔

ہمارے علماء کرام تو اس سے بھی منع فرماتے ہيں کہ قرآن کے لفظی ترجمے کو بھی بالکل خالص ترجمہ نہ کہو ، وہ بھی قریب ترین مفہوم ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید ایک معجزانہ کلام ہے جس کی  مکمل نظیر لانا کسی بھی زبان میں  ناممکن ہے۔ جیسا کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اپنے رسالے اصول تفسیر میں فرماتے ہیں۔

جس طرح یہ ضروری ہے کہ دیکھا جائے ہم کس سے علم حاصل کررہے ہیں کہیں وہ گمراہ بدعتی وغیرہ تو نہیں۔ امام حسن البصری رحمہ اللہ کا مشہور قول  جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے مقدمے میں ذکر فرماتے ہیں:

إن هذا العلم دين، فانظروا عمن تأخذون دينكم

بے شک یہ علم دین ہے، پس تم اچھی طر ح سے دیکھ لو کہ تم کس سے اپنا دین حاصل کررہے ہو۔

اسی طرح علم کی سند میں ایک کڑی مترجم بھی ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کا ترجمہ و ترجمانی بالکل درست ہو۔ اسلام میں جو گمراہ کن فرقوں اہل کلام اور فلاسفہ نے تباہ کاریاں مچائیں وہ اسی طرح ان کی کتب کے تراجم کے ذریعے ہی سے تھی۔

شیخ عبید الجابری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر کسی سلفی عالم کے کلام کا ترجمہ کسی بگڑے ہوئے منہج کے حامل شخص نے  کیا ہے تو سلفی علماء و طلبہ اطمینان کرلیں کہ وہ صحیح ہے۔ تب اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

1- شیعہ روافض کے ہاں تو قرآن مجید ہی محفوظ نہيں اس میں تحریفات کردی گئی ہیں، ان کے تراجم کا کیا کہنا۔ “مشارق الشموس الدرية في احقية مذاهب الإخبارية” میں عدنان البحرانی کہتے ہیں:

حاصل کلام یہ ہے کہ اہل بیت کے طریق سے بہت سی خبریں اگر متواتر درجے تک نہ بھی پہنچیں بہرحال بہت کثرت سے آئی ہیں کہ بلاشبہ جو قرآن آج ہمارے پاس ہے یہ وہ مکمل قرآن نہیں ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر نازل ہوا تھا، بلکہ اس میں ایسی باتیں بھی ہیں جو اللہ تعالی کے نازل کردہ کے خلا ف ہیں، اور کچھ میں تحریف اور تبدیلی کردی گئی ہیں۔ اور اس میں سے بہت سی چیزیں  محدوف کردی گئی ہیں جن میں سے علی رضی اللہ عنہ  کا نام بہت سی جگہوں سے حذف کردیا گیا ہے، اسی طرح سے آل محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام، اور منافقین کے نام اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ۔ اور یہ اس ترتیب سے نہیں جس سے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  راضی ہوں جیسا کہ علی بن ابراہیم کی تفسیر میں ہے۔۔۔مثال کے طور پر کنتم خیر أمة نہیں بلکہ آئمة تھا۔۔۔

اس کے علاوہ ان کے محدث محمد النعمانی اپنے رسالے المحکم والمتشابہ کے ص 90-91 میں موجودہ قرآن اور تحریفات کی مثالیں دیتے ہوئے کافی آیات ذکر کرتے ہیں:

امت کو خیر امت سورۃ آل عمران میں جو کہا گیا ہے وہ تحریف ہے کیونکہ امت میں تو زانی، لوطی، چور، لٹیرے ، ظالم، شرابی، فرائض الہی کو ضائع کرنے، اس کی حدود کو پامال کرنے والے بھی ہیں، کیا آپ کو لگتا ہے کہ اللہ تعالی ایسوں کی مدح فرمائے گا جن کی یہ صفات ہوں؟!

سورۃ النحل آیت 92 میں امت کی جگہ آئمہ تھا!

اسی طرح سورۃ ھود آیت 17 میں بھی اِمَامًا وَّرَحْمَةً میں الفاظ کی تقدیم و تاخیر ہونے کا دعوی کرکے کہہ رہے کہ امام یعنی نبی کے وصی علی کا بطور امام ذکر تھا۔

یا سورۃ آل عمران 128 میں بھی ظالمون کی جگہ ظالمون لآل محمد تھا!

اور سورۃ البقرۃ میں جو اس امت کو امت وسط قرار دیا گیا ہے، اس میں بھی آئمہ تھا۔

اور سورۃ النباء کے آخر میں جو کافر بروز قیامت حسرت کرے گا کاش میں تراب یعنی مٹی ہوتا تو کہتے ہیں تراب نہيں بلکہ ترابی تھا، کیونکہ امام علی کا لقب ابو تراب ہے!

2- اوربریلویوں کو ہی دیکھ لیں وہ  احمد رضا خان کا کنزالایمان قرآنی ترجمہ پڑھنے پر ہی زور دیتےہیں، ان کے نزدیک اس کے علاوہ کسی کا پڑھنا درست نہیں، کیونکہ اس میں انہوں نے اپنی بدعقیدگی کو قائم رکھنے کے لیے جن آیات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ذات مبارک کو اللہ کا شریک کسی طور پر بنانے کی نفی ہوتی تھی اپنے حفاظتی معانی کے حصار قائم کرلیے۔ جس کی تفصیل پر ہم کتاب نشر کرچکے ہیں ۔   جو اس لنک سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

مثال کے طور پر:  ہر جگہ یاایھا النبی کا ترجمہ اے غیب کی خبریں بتانے والے!

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو اللہ نے شاہد (گواہ) بناکر بھیجا، اس کا ترجمہ حاضر و ناظر!

بشریت ثابت کرنے سے بچنے کے لیے (صرف) ظاہر صورت بشری میں تم جیسا ہو!

النجم کا ترجمہ پیارے چمکتے تارے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی قسم!

خلق الانسان کا ترجمہ انسانیت کی جان محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا کیا!

علمہ البیان کا ترجمہ ماکان ومایکون کا بیان انہیں سکھایا!

اور اس کے علاوہ بہت سی مثالیں ذکر کی گئی ہیں۔

3- اسی طر ح کا حال دیوبندیوں کے ترجمۂ قرآن کا بھی معروف ہے کیونکہ ظاہر ہے یہ اور بریلوی  عقیدے میں اشعری ماتریدی ہیں جو اللہ کی صفات کی تاویلات کے قائل ہیں، تو اپنی تاویل کے مطابق ہی معانی کرتے ہیں۔ پہلے پہل ان کا ترجمہ سعودی حکومت کی طرف سے شائع ہوا تھا پھر اسے روک دیا گیا۔

ترجمہ مولانا محمود الحسن دیوبندی کا تھا، اور تفسیر شبیر احمد عثمانی کی۔

جس میں تفسیری حاشیہ کرتے ہوئے سورۃ الفاتحہ ہی میں جہاں ذکر ہے کہ: اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ کہتے ہیں: اس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ اس کی ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے۔ ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض واسطۂ رحمت الہی اور غیرمستقل سمجھ کر استعانت ظاہر اس سے کرے تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت درحقیقت حق تعالی ہی سے استعانت ہے۔ (وہی واسطے وسیلے اور عطائی شرک والا مشرکین کا مشہور ترین عقیدہ)

اور اللہ تعالی کی ذاتی اور افعالی صفات جیسے ید(ہاتھ) اور استواء علی العرش (عرش عظیم پر بلند اوپر ہونا) وغیرہ کی وہی تاویلات جو اہل کلام اشعری ماتریدی اور ان سے بھی پہلے معتزلہ جہمیہ وغیرہ کرتے آئے ہيں۔

چنانچہ عقیدے اور منہج  کے مسائل  میں باقاعدہ اس سے فرق پڑتا ہے۔

4- عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور کتاب میں شیخ صالح الفوزان  حفظہ اللہ کے ص 99میں عملی ارتداد کی مثالیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

والحكم بغير ما أنزل الله معتقدا حله

صحیح ترجمہ اس کا ہے  (اللہ تعالیٰ کی نازل شدہ شریعت کے علاوہ دوسرے قوانین کے مطابق فیصلہ دیناااس کی حلت(حلال ہونے) کا عقیدہ رکھتے ہوئے)۔

جبکہ الدار السلفیہ والے مولانا مختار احمد ندوی  رحمہ اللہ نے یہ ترجمہ فرمایا تھا:

(اللہ تعالیٰ کی نازل شدہ شریعت کے علاوہ دوسرے قوانین کے مطابق فیصلہ دینا اور شریعت کے علاوہ انسانی قانون کو ہی مسئلہ کا حل سمجھنا وغیرہ)۔

(دیکھیں کتاب التوحید ص 55ناشر مکتبہ السنۃ، سولجر بازار، کراچی)۔

اس میں بھی تکفیریوں اور سلفیوں کے مابین ایک معرکۃ الاراء مسئلہ یعنی حکم بغیر ما انزل اللہ سے مطلقاً کوئی مسلمان کافر ہوجاتا ہے یا  جب تک وہ اسے حلال نہ سمجھے؟ ذکر کیا گیا ہے۔   تو شیخ الفوزان نے یہ ہی ذکر فرمایا تھا جو سلفی علماء کرام کا تفصیل پر مبنی منہج ہے کہ: معتقدا حلہ (یعنی اس کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھنے والا کافر ہوجاتا ہے)۔ جبکہ مولانا صاحب نے ترجمہ فرمایا کہ: اور شریعت کے علاوہ انسانی قانون کو ہی مسئلہ کا حل سمجھنا وغیرہ ۔ جو عام طور پر تکفیریوں کا استدلال ہوتا ہے۔

5- اسی طرح تاویلات کرنے والے جیسے ابو الاعلی مودودی عفا اللہ عنہ آیۃ الکرسی میں اللہ کی کرسی کو اس کا علم حکومت وغیرہ مراد لیتے ہیں۔ یہ ہی چیز الھدی انٹرنیشنل والی فرحت ہاشمی صاحبہ بھی کرتی ہیں۔

 حالانکہ اس بارے میں واضح آثار موجود ہیں سلف صالحین سے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ سے کہ اللہ کی کرسی اس کے قدم رکھنے کی جگہ ہے، اور اس کرسی کے سامنے پوری کائنات کی حیثیت محض ایک بڑے صحراء میں پڑی انگوٹھی کی طرح ہے (یعنی جو نظر بھی نہ آئے اتنی چھوٹی اور حقیر)۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

اللہ تعالی کا فرمان: { وسع كرسيه السماوات والأرض } (اس کی کرسی کی وسعت نے زمین وآسمان کو گھیر رکھا ہے) یعنی (شمل) گھیرا ہوا ہے اور (أحاط) احاطہ کیا ہوا ہے۔ جیسا کہ کہنے والا کہتا ہے (وسعني المكان) مجھے مکان نے اپنی وسعت میں لے رکھا ہے یعنی مجھے گھیر رکھا ہے اور میرا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اور «الكرسي» (کرسی) اللہ تعالی کے قدم رکھنے کی جگہ ہے اور وہ عرش کے سامنے اس طرح ہے گویا کہ وہ عرش کا مقدمہ ہو، یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے صحیح سند کے ساتھ موقوفاً[1] مروی ہے اور ایسی حالت میں اس کا حکم مرفوع کا ہوتا ہے کیونکہ اس میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں۔ اور جو کہا جاتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما  بنی اسرائیل سے بھی روایت کرلیا کرتے تھے تو وہ ان سے صحیح ثابت نہیں۔ بلکہ جو ان سے صحیح سند کے ساتھ بخاری[2] میں مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہما  تو اس بات سے منع فرمایا کرتے تھے کہ بنی اسرائیل سے روایت کی جائے۔ پس اہل سنت والجماعت کا عام عقیدہ یہی ہے کہ کرسی اللہ تعالی کے قدم رکھنے کی جگہ ہے اور اسی بات کو پورے رسوخ سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن القیم وغیرہ (رحمہم اللہ) جیسے اہل علم ومحقق آئمہ کرام نے بیان فرمایا۔

          اور یہ بھی کہا گیا کہ کرسی سے مراد عرش ہے لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ عرش تو کرسی سے بڑا، وسعت اور احاطے کے اعتبار سے زیادہ بلیغ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ { كرسيه } سے مراد اس کا علم ہے مگر میرے خیال میں یہ روایت ابن عباس  سے صحیح طور پر ثابت نہیں[3] کیونکہ اس لفظ کا یہ معنی عربی لغت میں معروف نہیں اور نہ ہی شرعی حقیقت میں ہی ایسا ہے۔ لہذا یہ اس بات سے بہت بعید ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح طور پر ثابت ہو۔

          پس کرسی قدم رکھنے کی جگہ ہے اور اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث بھی آتی ہے کہ:

«ما السموات السبع والأرضون بالنسبة للكرسي إلا كحلقة ألقيت في فلاة من الأرض وإن فضل العرش على الكرسي كفضل الفلاة على تلك الحلقة»

(ساتوں آسمان اور زمینیں کرسی کے مقابلے میں ایک انگوٹھی کی مانند ہے جسے لق ودق صحراء میں پھینک دیا گیا ہو۔ اور عرش کی فوقیت اس کرسی پر ایسی ہے جیسے اس لق ودق صحراء کی اس انگوٹھی پر)[4]

اور یہ سب ان عظیم مخلوقات کی وسعت پر دلالت کرتی ہیں جو کہ ہمارے لیے عالمِ غیب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالی فرماتا ہے:

{أفلم ينظروا إلى السماء فوقهم كيف بنيناها} [ق: 6]

(کیا یہ اپنے اوپر آسمان پر نظر نہیں ڈالتے کہ ہم نے کیسے اسے بنایا)

          یہ نہیں فرمایا کہ أفلم ينظروا إلى الكرسي؛ أو إلى العرش (کیا یہ کرسی کی طرف  نظر نہیں کرتے یا عرش کی طرف) کیونکہ یہ ہمارے لیے غیر مرئی ہیں اور اگر اللہ تعالی ہمیں اس کی خبر نہ دیتا تو ہم کبھی اس کے بارے میں ازخود نہ جان پاتے۔

اس آیت { وسع كرسيه السموات والأرض } سے کرسی کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ اور اسی طرح اس سے کرسی کے خالق کی عظمت معلوم ہوتی ہے کیونکہ مخلوق کی عظمت اس کے خالق کی عظمت پر دلالت کناں ہے۔[5]

سلف کی اس تفسیر کے مقابلے میں ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ “الکرسی” کی تاویل کرتے ہوئے فرماتی ہیں:

“۔۔۔ وسع کرسیہ السماوات والارض، اس کی بادشاہت، اس کا اقتدار، اس کا علم آسمانوں اور زمین پر چھایا ہوا ہے۔ ۔۔۔ وسع کرسیہ السماوات والارض، اللہ کی ذات جس کا اقتدار سارے آسمانوں پر اور پوری زمین پر۔۔۔۔” ۔ (فہم القرآن کورس سن 1999، 2000، 2001، 2002، 2005ع)

حالانکہ آپ دیکھیں علم کے معنی میں امام المفسرین ابن جریر الطبری رحمہ اللہ نے اسے لیا تو اہل علم نے ان کا بھی رد فرمایا جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس آیت کے ظاہری لفظ، سیاق اور عقلی دلالت  کے ذریعے تنقید کرتے ہوئے فرمایا:

ان میں سے بعض سے منقول ہے کہ بے شک اس کی کرسی سے مراد اس کا علم ہے تو یہ ضعیف قول ہے۔کیونکہ بے شک اللہ تعالی کا علم تو ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے جیسا کہ فرمایا:

رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا المؤمن: 7

اے ہمارے رب! تو نے ہر چیز کو رحمت اور علم سے گھیر رکھا ہے۔

اللہ تعالی اپنے آ پ کو اور جو کچھ ہوا اور نہیں ہوا سب کچھ جانتا ہے۔ اگر کہا جائے: اس کا علم آسمانوں اور زمین کو گھیرے ہوئے ہیں تو یہ معنی مناسب نہیں ہوگا، خصوصاً جب اللہ تعالی نے آگے فرمادیا کہ:

وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا

یعنی ان دونوں کی حفاظت اس پر کچھ بھاری نہیں اور نہ اسے تھکاتی ہے۔

اور یہ بات قدرت سے مناسبت رکھتی ہے ناکہ علم سے۔ ساتھ ہی اس بارے میں جو آثار آئے ہیں وہ بھی اسی بات کا تقاضہ کرتے ہیں۔

[مجموع الفتاوی ج 6 ص 584]

6- اسی طرح حکمران وقت کی سمع و طاعت کے بجائے اپنے جمعیات و حزبیات کی امارتوں کی طرف بلانے والے اس آیت کا یہ ترجمہ کرتےہيں:

جیسا کہ  جماعت اسلامی کے مولانا مودودی

وَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ

حالانکہ اگر یہ اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں۔[النساء: 83]

اور جماعت اسلامی ہی کے منہج پر چلنے والی مرکزی جمعیت اہل حدیث نے بھی اپنے پیغام ٹی وی پر مسجد نبوی کے خطبے کا ترجمہ کرتے ہوئے یہی ترجمہ پیش کیا۔

7- اور تو اور انجینئرمحمد  علی مرزا دارالسلام کی شائع کردہ اقتضاء الصراط المستقیم میں شیخ الاسلام پر تہمت لگاتے ہیں کہ وہ عید میلاد کی بدعت میں محنت کرنے پر ثواب ملنے کا حکم لگاتے ہیں، حالانکہ وہاں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی محبت پر ثواب کا ذکر ہے ناکہ میلاد پر، البتہ ترجمہ میں ایک نکتے کی غلطی سے محبت کے بجائے محنت لکھا ہے، اور اب تک اسی طر ح چھپ رہا ہے! وہ ناعاقبت اندیش بندہ اسی ترجمے کو دلیل بنارہا ہے اتنا بڑا حکم لگانے  کی جسارت کرتا ہے۔ اس تہمت کے ازالے کے تعلق سے الحمدللہ ہم تحقیقی کتاب شائع کرچکے ہیں، جو اس لنک سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

اور آپ کو یاد ہوگا یہ تو وہی حضرت ہیں جو ایام بیض (یعنی روشن ایام13-14-15  تاریخ) کو بیضہ سے ماخوذ سمجھ کر گول دن یعنی گول چاند والے دن قرار دے رہے تھے۔ اور جگ ہنسائی کا سبب بنے تھے۔

8- بلکہ حال ہی میں ہم مکتبہ الفرقان، مظفر گڑھ اردو کے شائع کردہ ترجمے دائمی عقیدہ جو کہ لمعۃ الاعتقاد پر شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کی شرح ہے  پر سرسری نظر ڈال رہے تھے تو اس میں ترجمے کی ایک فحش غلطی نظر آئی۔

شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

والسورة في الأصل: الشيء المحمي الرفيع.

یعنی سورۃ کا اصل معنی ہے کوئی محفوظ اور بلند چیز۔

ان کے مترجم حضرت کہتے ہیں: سورت اصل میں ایک گرم اور بلند چیز کو کہتے ہیں۔

دراصل  محمی حمایت سے لینے کے بجائے شاید حمیم سے تصور کرلیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کی کوئی مناسبت ہی نہيں ہے!

مجھے یاد ہے کہ ان حضرات کو ایک مرتبہ پہلے بھی درخواست کرنے پر اپنی ترجمہ شدہ کتاب سلفی منہج اور توحید اولاً شیخ البانی چھاپنے کی اجازت دی تھی، مگر انہوں نے اس میں ایک اور مجہول سے شخص کی کتاب کا اضافہ کرکے اسے مشکوک بنادیا۔

اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مشہور کتاب اولیاء اللہ اور اولیاء الشیطان کے مابین فرقان کتاب کو شائع کیا، اور آخر میں اپنی طرف سے حزبیوں کے لیڈر احیاء التراث کے بانی عبدالرحمن عبدالخالق کے تصوف پر لکھے رسالے کو بھی داخل کردیا، لوگ یہی دھوکہ کھاتے رہیں گے کہ یہ شیخ الاسلام کی مکمل کتاب ہے۔ حالانکہ اس رسالے میں اپنی خارجی منہج کے مطابق عبدالرحمن عبدالخالق نے لکھا ہے کہ تصوف کی برائیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنے سے روکتے ہیں! جبکہ تمام سلفیوں کو پتہ ہے کہ یہ تو صحیح عقیدۂ اہل سنت والجماعت ہے۔ بلکہ انہوں نے تو کتاب کا مصنف شیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کو تصور کرلیا حالانکہ وہ مترجم ہیں، اور عبدالرحمن عبدالخالق کویتی کو مترجم!

9- یہی حال دیگر زبانوں کے تعلق سے بھی ہے۔ انگریزی زبان میں دارالسلام کے ترجمے میں نہایت ہی خطرناک قسم کی غلطی کی گئی جو کہ عقیدے کے خلاف بھی ہے اور گستاخی پر مبنی تصور کی جاسکتی ہے۔ جس حدیث میں ہے کہ جبرئیل علیہ السلام کبھی صحابی دحیہ الکلبی رضی اللہ عنہ کی شکل و صورت میں آتے تھے۔ تو الکلبی سے کلب یعنی کتا مراد لیتے ہوئے  in the form of dog  یا ایسا کچھ ترجمہ کیا گیا تھا! حالانکہ فرشتے تو وہاں آتے نہیں جہاں کتے ہوں، چہ جائیکہ وہ خود کتنے کی شکل میں آئیں، نعوذ باللہ! (اس حوالے کی اسکین میرے پاس موجود تھی جو اب مل نہيں رہی، اگر کسی ساتھی کے پاس ہو تو مطلع کریں)

ترجمے سے ترجمہ کرنا

آخر میں ایک تنبیہ اور بھی ضروری ہے بہت سے لوگ جو دینی مواد کو نشر کرنے کا شوق رکھتے ہیں وہ ترجمہ در ترجمہ پر کام کرنے لگتے ہيں جو کہ درست نہیں یعنی مثال کے طور پر میں نے اصل عربی کتاب سے اردو میں ترجمہ کیا تو وہ عربی نہ جاننے کی وجہ سے اس اردو کو انگریزی یا فرینچ میں ترجمہ کرتے ہیں جس سے مفہوم میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ بلکہ اہل علم بیان کرتے ہيں یونان، روم، فارس، یہود و نصاری وغیرہ کی گمراہی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اصل زبان کے بجائے ترجمہ شدہ کتاب کا ترجمہ کرتے اور مفہوم بدلتے رہے اور گمراہیاں بڑھتی رہیں۔

اردو رومن میں لکھنا

Urdu roman may likhna

ایک اور اہم تنبیہ یہ ہے کہ بعض ساتھی دینی دعوتی جذبے سے سرشار ہمارے تراجم کو اردو سے انگریزی رومن میں لکھنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے بارے میں پہلے بھی ہم بتاچکے ہيں کے تمام الفاظ کا صحیح تلفظ نہیں نکالا جاسکتا، اور نہ ہی اس کا کوئی ایک معیاری طریقہ ہے جس کی سب پابندی کرتے ہوں، اس میں بھی وہی مسئلہ ہے کہ مفہوم میں تبدیلی آسکتی ہے۔

لہذا ان تکلفات سے بچیں۔ اب تو ٹیکنالوجی کتنے آگے جاچکی ہے، فوری طور پر ایک کلک سے کم از کم لب لباب اور مفہوم سمجھنے کے لیے ترجمہ ہوسکتا ہے، اور ایک ہی عنوان پر کتاب کے ساتھ ساتھ آڈیوز، ویڈیوز بھی دستیاب ہوتی ہیں، جو نہ پڑھ سکتا ہو تو وہ سن لے۔

اللہ تعالی ہمیں ان جدید وسائل کو خیر میں استعمال کرنے کی توفیق دے اور ان کے شر سے بچائے۔ آمین

سلفی عقیدے و منہج کی معرفت کی روشنی میں دینی لٹریچر پر خصوصی رعایت کے ساتھ عربی سے ارد وقابل اعتماد تراجم کے لیے ہماری خدمات حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔


[1]  دیکھیں المعجم الكبير للطبراني 12/93، حديث رقم 12404؛ اور الهيثمي نے کہا: رجاله رجال الصحيح (اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں) (مجمع الزوائد 6/326)؛ اور دیکھیں مستدرك الحاكم 2/282، كتاب التفسير، اور کہا: شيخين کی شرط پر صحیح ہے لیکن انہوں نے اسے روایت نہیں کیا، اور امام ذهبي نے بھی اس کا اقرار کیا ہے.

[2]   دیکھیں بخاري ص612 – 613، كتاب الاعتصام بالسنة، باب 25: قول النبي صلى الله عليه وسلم: “لا تسألوا أهل الكتاب عن شيء“، حديث رقم 7363.

[3]   دیکھیں تفسير الطبري 5/397 – 398، القول في تأويل قوله تعالى: (وسع كرسيه السموات والأرض)، حديث رقم 5787 – 5788؛ ابن أبي العز نے ذکر کیا کہ “أن المحفوظ عن ابن عباس أن الكرسي هو موضع القدمين (جو بات ابن عباس (رضی اللہ عنہما) سے محفوظ ہے وہ یہ ہے کہ کرسی اللہ تعالی کے دونوں قدم رکھنے کی جگہ ہے) (شرح العقيدة الطحاوية ص371) اور شعيب الأرناؤوط نے ذكر کیا: أن أثر ابن عباس في تفسير الكرسي بأنه موضع القدمين أصح إسناداً (ابن عباس (رضی اللہ عنہما) کا کرسی کی تفسیر یہ اثر کہ وہ اس کے دونوں قدموں کے رکھنے کی جگہ ہے سند کے اعتبار سے صحیح ترین ہے)  (شرح العقيدة الطحاوية ص371، حاشية رقم 1)، اور محمود شاكر نے ذکر کیا کہ أنه إذا كان أثر ابن عباس في تفسير الكرسي بالعلم صحيح الإسناد فإن الخبر الآخر صحيح على شرط الشيخين (اگر ابن عباس (رضی اللہ عنہما) کا کرسی کی تفسیر علم سے کرنے والا اثر صحیح بھی ہو پھر بھی دوسری خبر تو شیخین کی شرط پر صحیح ہے)  (تفسير الطبري 5/401، حاشية رقم 1).

[4]  أخرجه ابن حبان في صحيحه 1/287، باب ذكر الاستحباب للمرء أن يكون له من كل خير حظ…، حديث رقم 362؛ وفي سنده إبراهيم بن هشام بن يحيى الغساني قال أبو حاتم وأبو زرعة: كذاب، وقال علي بن الجنيد: صدق أبو حاتم ينبغي أن لا يحدث عنه (ميزان الاعتدال 1/73)؛ وأخرجه ابن جرير الطبري في تفسيره 5/399، تحقيق أحمد شاكر وفي سنده ابن زيد هو عبد الرحمن بن زيد بن أسلم العدوي: قال البخاري: ضعفه عليّ جداً، وقال النسائي وأحمد ويحيى: ضعيف (ميزان الاعتدال 2/564؛ وقال شعيب في تخريج شرح العقيدة الطحاوية ص370، 371) ضعيف. بعض علماء نے اسے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی نے مجموعی طرق کے اعتبار سے صحیح کہا ہے دیکھۓ السلسلة الصحيحة  رقم 109اور دیکھۓ عقیدہ الطحاوية پر تعلیق۔

[5]  شیخ عثیمین سلسلہ تفسیر سورۃ البقرۃ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے