بسم اللہ الرحمن الرحیم
[ہمارے تمام شہر ہی پیارے ہیں اور اپنی انفرادیت رکھتے ہیں، اس مضمون سے مراد کوئی منفی تبصرہ نہیں، محض کچھ تجربات ازراہ تفنن قلم بند کیے گئے ہیں]
ارے یہ سبزی کی دکان پر اتنا رش کیوں ہے؟!
بھائی مجھے پہلے دے دو!
بس باجی جانےکا ٹائم ہے سب بند کرکے۔۔۔
جی ہاں، اسلام آباد کے کسی سیکٹر میں یہ سبزی فروٹ فروش ہیں، اور کل یا پرسوں عید ہوگی، لہذا نہ صرف یہ حضرت بلکہ ان جیسے دیگر دکانوں والے بھی عید کی چھٹیوں پر اپنے علاقے جارہے ہیں، پھر واپس آنا تو یوں لگتا ہے بھول ہی گئے۔ کئی کئی مہینے آپ منتظر رہیں گے۔ کچھ تو ایک عید پر جاکر دوسری عید کے بعد آئيں گے۔ صرف چیزیں بیچنے والے نہيں بلکہ خدمات فراہم کرنے والے جیسے پلمبر ، الیکٹریشن اور مکینک وغیرہ کی بھی لمبی چھٹی۔
سر مجھے عید سے کچھ پہلے چھٹی دے دیں ورنہ پشاور جانے والی گاڑی نہیں ملے گی، بہت رش ہوتا ہے۔ اس قسم کی عرضیاں ہرآفس، ادارے اور محکمے میں سننے کو مل رہی ہوتی ہیں۔
اگر آپ اس دفعہ اپنے شہر یا گاؤں عید کی چھٹی پر نہيں گئے یا خوش قسمتی سے اسلام آباد ہی آپ کا اصل شہر ہے تو پھر ان مناظراو رحالات کا آپ کو عادی بننا پڑے گا۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ 1960 میں بنایا گیا یہ خوبصورت و مصنوعی شہر غالب اکثریت کے لحاظ سے غیرمقامی لوگوں سے آباد ہے، آفیسرز سے لے کر ماسیوں تک سب ملک کےدیگر شہروں صوبوں سے یہاں معاش کے سلسلے میں گزر بسر کرتےہيں۔
خیر اب تو بہت تبدیلی آگئی ہے، ورنہ جوٹیکسی ڈرائیور آپ کے ساتھ بیٹھے کسی سیکٹر کے بارے میں یہی کہتا ملے گا پتہ ہے یہ تو پہلے جنگل ہوتا تھا!میں 2019 سےاسلام آباد شفٹ ہوا ہوں اور سچی بات ہے جی 11 کے اچھے خاصے پرانے سیکٹر میں جنگلی سوروں کو دندناتے ہوئے تو ہم نےبھی دیکھا تھا۔
اب کراچی لاہور سے آیا انسان اپنے ابتدائی تجربات میں حیرت کا شکار رہتا ہے۔ عید کی صبح ہے ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے، کیا میں اکیلا عید کی نماز پڑھنے جارہا ہوں، باقی لوگ کہاں ہیں! لگتا ہے پرندے بھی شاید فیصل آباد سے آئے تھے جو عید پر واپس چلے گئے، اب تو وہ بھی غائب ہيں۔ [ویسے پچھلے دنوں کوئی درندہ بھی وہاں سے آیا تھا، بہرحال] ہاں ایک آدھ درویش صفت کتے جو روز راہ میں پڑے ہوتے ہیں نظر آسکتے ہيں۔
البتہ عیدگاہ میں پہنچ کر کچھ آبادی کے آثار نظر آئے۔شکر ہے ورنہ شاید ہمیں ہی جنات کی جماعت کروانی پڑجاتی۔ جن لوگوں کے یہاں رشتہ دار نہ ہوں تو کسی کے گھر آنا جانا بھی نہیں ہوتا۔ باقی مشہور تو یہ ہی ہے کہ یہاں پڑوسی کو پڑوسی کی خبر نہیں ہوتی۔
بچوں کے سیر و سیاحت کے قریبی مقامات تو پہلےہی با ربار گھوم کر اکتا چکے ہيں۔ ہاں اسلا م آباد رہنے کا یہ فائدہ ہے کہ شمالی سیاحتی پہاڑی علاقہ جات قریب ہیں جہاں گرمی میں بھی خوشگوار موسم رہتا ہے۔ جن کی اپنی سواری ہو اور وقت کی فراوانی ان کے تو مزے ہيں۔ لیکن ٹیکسی سروس یا کار بک کروانے والے تو خوار ہی ہوجاتے ہيں۔
لے دے کر مارگلہ کی پہاڑی پر ایک مونال ریسٹورنٹ اسلام آباد والوں کے لیے منفرد جگہ تھی اب تو وہ بھی ختم ہوچکا، اللہ جانے اب وہاں کیا ہے۔ اور وہاں بھی جب خاص تہوار کے مواقع پر جانا ہوتا تو آن لائن ٹیکسی سروس والے طے شدہ مناسب ریٹ پر آفر قبول تو کرلیتے تھے، لیکن پھر میسج یا کال آتی ہےجناب آنا جانا کرنا ہے یا نہیں، بصورت دیگر یک طرفہ قبول کیے گئے کرایے سے بھی وارے میں نہيں پڑتا کہہ کر!دگنا تگنا کرایہ مانگتے تھے۔
ویسے تو عام طور پر اسلام آباد میں نائٹ لائف اتنی نہيں ہوا کرتی تھی، گاؤں کی طرح مغرب سے پہلے کھانا کھا کر بس رات جلد سوجانا۔ لیکن حالیہ کچھ برسوں سےشہر کے بڑے مراکز میں رونق اور گھما گھمی رہتی ہے۔ عید کے ایام میں بڑے مالز اور اسٹورز تو بند ہوتے ہيں لیکن فوڈ اسٹریٹس کھلی رہتی ہيں۔ یہ الگ بات ہے کہ پلاؤ کو بریانی کہہ کر کھلایا جاتا ہے، اور شیرمال کا یہاں مل جانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
جڑواں شہر کا بھی الگ چکر ہے، راولپنڈی سے اسلام آباد داخل ہوتے ہی فضاء تک بدل جاتی ہے۔ اور گلی محلے کے ماحول کی محرومیاں وہاں دور کی جاسکتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ علاقے اختلافی دعوؤں کی زد میں بھی رہتے ہیں کوئی کہتا ہے یہ پنڈی ہے کوئی کہتا ہے اسلام آباد ہے۔
بہرحال متفق علیہ پنڈی میں کسی عید پر بچوں کو امیوزمنٹ پارک لے جانے کا حادثہ بھی پیش آچکا ہے، سبحان اللہ! عوام کا سیلاب تھا ، ٹکٹ کٹاؤ لائن بناؤ۔ باری آنے تک بچے ہی بیزار ہوجائيں۔
ذہن کچھ منتشر ہے اور مزید لکھنے کا ماحول دستیاب نہیں ہوپارہا۔ دیگر بلاگز کی طرح یہ بھی بعد ازیں اپ ڈیٹ کیا جاسکتا ہے۔ چلیں اس دفعہ اتنا ہی، پھر ملتے ہیں کسی نئے اور دلچسپ تبصرے کے ساتھ۔
فیصل آباد سے حمیدہ شاہین کی غزل “رد ہے رد ہے” کی زمین پر آپ کے لئے کوئی منقبت شائع ہو سکتی ہے
اس لیے ضروری نوٹ شروع مضمون پر آویزاں کردیا گیا ہے