پاکستان میں پچھلے کچھ دنوں سے انٹرنیٹ کا مسئلہ چل رہا ہے۔ کبھی وائی فائی صحیح چلتا ہے تو ڈیٹا ٹھیک نہیں چلتا، کبھی ڈیٹا ٹھیک چلنے لگتا ہے تو وائی فائی سست روی کا شکار ہوجاتا ہے۔ کبھی واٹس ایپ پر میسج جاتے ہیں لیکن وائس نوٹ نہیں جاتے وغیرہ۔
یوں تو ملکی امن و امان اور سالمیت کی خاطر کچھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندیاں لگتی رہی ہیں مگر اس دفعہ کا معاملہ اکثر لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے، مختلف قیاس آرائیاں عروج پر ہیں جیسے:
- فائر وال پر کام چل رہا ہے۔
- لوگوں کے وی پی این باکثرت چلانے کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے۔( جی ہاں وہی وی پی این جو ہمارے ملک میں کچھ لوگ اپنے بین الاقوامی کاروبار کی ضرورت کے تحت استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ کچھ کے لبوں پر تو اس کا نام سنتے ہی ایک معنی خیز مسکراہٹ آجاتی ہے)
- اور حلیہ پی ٹی اے بیانیہ میں ہے کہ ہمیشہ کی طرح انٹرنیٹ زیر سمندر( سب میرین) کیبل متاثر ہے۔ (اور اس خبر کے سنتے ہی شارک مچھلی سمندر کے اندر کیبل تار چباتی ہوئی سامنے آجاتی ہے)
-
البتہ اس کی وجہ سے فری لانسرز اور دیگر انٹرنیٹ سے منسلکہ کاروبارکو ملین ڈالرز کا نقصان ہورہا ہے۔
خیر یہ باتیں تو آپ کو خبروں سے متعلق میڈیا پر بآسانی مل جائيں گی۔
ایک لمحۂ فکریہ یہ بھی ہے کہ انسان جب بہت سی سہولیات کا عادی ہوجاتا ہے تو اس کے بغیر گزارا انتہائی کٹھن اور مشکل محسوس ہونے لگتا ہے۔ حالانکہ اگر وہ سوچے کے کچھ برس پہلے وہ اس کے بغیر بھی ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا۔
جیسے بجلی کا عادی ہونا، یا ائیرکنڈیشنر، کار اور ہوائی جہاز کا سفر، تیز انٹرنیٹ کی سہولیات وغیرہ جو کہ بے شک کسی نعمت سے کم نہيں مگر ہر حال میں صبر کرتے ہوئے جینے کا فن سیکھنا ضروری ہے۔ اور ضرورت کو ایجاد کی ماں کہا جاتا ہے تو انسان مجبور ہوکر کوئی نہ کوئی متبادل طریقہ نکال ہی لیتا ہے۔
ہمارے ہاں بہت سے لوگ اپنے کاروبار اور نوکری کے لیے انٹرنیٹ پر انحصار کرتے ہیں مگر مجموعی طور پر اگر معاشرے میں موبائل اٹھائے کھڑے، پڑے، چلتے ہوئے نیم مردہ قسم کے لوگوں کو دیکھیں تو سارا وقت تفریح (انٹرٹینمنٹ) پر ہی صرف کرتے ہيں۔ ریل پر ریل انگلیوں پر کسی ورد کی طرح چلاتے نظر آتے ہیں۔ بچے تک اتنے عادی ہوجاتے ہیں کہ یوٹیوب کی چلتی ویڈیو پر ذرا سی بفرنگ ہونے لگے تو چیخ چیخ کر آپ کی روح تک کے صبر کا امتحا ن لینا شروع کردیتے ہیں۔سلام دعاء کے فوراً بعد مہمان وائی فائی کا پاس ورڈ پوچھنے لگتا ہے، اور وائی فائی بند ہونے پر بعض کی سانسیں رکنے لگتی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ سیارہ چھوڑنے کا وقت آچکا ہے!
پریشانیاں صدا تو نہيں رہتی، ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ ہمارے ایک اچھے ساتھی جن کا تعلق نائجر افریقہ سے ہے کافی سال پڑھائی کے سلسلے میں اپنی فیملی سمیت اسلام آباد میں رہ رہے تھے، کچھ عرصہ قبل وطن واپسی پر بتاتے ہیں بچے سخت ناراض ہیں نہ بجلی ہے نہ دیگر سہولیات، آخر لوگ اس طرح بھی اسی دنیا میں جی رہے ہیں۔ باقی یہاں فلسطین جیسے علاقوں کا ذکر کرنا تو دل کو چھلنی کرنے کے مترادف ہے۔
اور ایسے موقعوں پر ہماری رہنمائی کے لیے یہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافی ہے کہ فرمایا:
انْظُرُوا إِلَى مَنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ، وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ، فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ
اپنے سے نیچے کی طرف دیکھو، اپنے سے اوپر کی طرف نہ دیکھو، یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے کہ اس کے سبب اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو حقیر نہیں سمجھو گے۔[صحیح مسلم 7430]
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ ہمار ےتمام مسائل کو اپنے فضل و کرم سے حل فرمادے۔