بسم اللہ الرحمن الرحیم
یقیناً آپ سوچ رہے ہوں گے یہ کیسا عنوان ہے۔ مگر حقیقت میں ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اخوانی سے مراد اخوان المسلمین یا ہمارے ہاں جماعت اسلامی جیسے افکار رکھنے والے لوگ ہيں یعنی جن کا اوڑھنا بچھونا حکومت کے حصول کے لیے تحریکیں چلانا، بلکہ اسے ہی انسانیت کی تخلیق کا مقصد اور انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلا م کا مشن باور کروانا، نیز حکومت کو کافر قرار دینا اور اس پر خروج کرنا اور لوگوں کو ان کے خلاف اپنی تقریر و تحریر سے ابھارنا، جلسے، جلوس، احتجاجی مظاہرات، انقلابات، جہاد کے نام پر دہشتگردوں کا ساتھ دینا وغیرہ وغیرہ۔
اور جوانی کی تعریف کی ضرورت نہيں جوانی دیوانی جوش و جذبے سے بھرپور، کم عقلی اور جذبات کی رو میں بہنے والی کو سب ہی جانتے ہيں۔ جبھی تو ایک حدیث میں ہے کہ جو اس طرح کا نوجوان نہ ہو تو اللہ تعالی کو اس پر تعجب اور رشک ہوتا ہے[مسند احمد 17371] اور جبھی جو اللہ کی عبادت میں عمر کے اس مرحلے میں لگا رہے تو اسے اللہ کے عرش کا سایہ نصیب ہوگا[صحیح بخاری 660]۔
لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی یہ ہی نشانی خوارج کی بیان فرمائی کہ وہ حدثاء الاسنان اور سفہاء الاحلام ہوں گے یعنی کم سن اور کم عقل[صحیح بخاری 3611]۔ یہ ہی لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف بھی نکلے تھے جن میں اکثر یہ ہی نوجوان تھے، اور کوئی بزرگ صحابی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ بلکہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
نهانا كُبَراؤُنا مِنْ أصحابِ رسولِ اللهِ قال : لا تَسُبُّوا أُمَراءَكم ولا تَغُشُّوهم ولا تَبْغَضوهم واتقوا اللهَ واصبِروا فإنَّ الأمرَ قريبٌ
ہمیں ہمارے بڑو ں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ ہیں منع فرمایا ہے کہ اپنے حکمرانوں کو برا بھلا مت کہو ، نہ انہیں دھوکہ دو، نہ ان سے بغض رکھو (نہ ان کی نافرمانی کرو)، اور اللہ سے ڈرو اور صبر کرتے رہو کیونکہ معاملہ قریب ہے۔ [شعب الایمان للبیہقی 7186، السنۃ لابن ابی عاصم 1015 قال الالبانی: اسنادہ جید]
یہ ہی بات انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اس وقت بھی فرمائی جب ان سے حجاج بن یوسف کے مظالم کی شکایت کی گئی تو فرمایا:
اصْبِرُوا، فَإِنَّهُ لَا يَأْتِي عَلَيْكُمْ زَمَانٌ إِلَّا الَّذِي بَعْدَهُ شَرٌّ مِنْهُ حَتَّى تَلْقَوْا رَبَّكُمْ، سَمِعْتُهُ مِنْ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
صبر کرتے رہو، کیونکہ بے شک تم پر کوئی بھی زمانہ جو آئے گا تو اس کے بعد والا زمانہ اس سے بھی بدتر ہوگا یہاں تک کہ تم اپنے رب سے جاملو، میں نے یہ بات تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے۔ [صحیح بخاری 7068]
چنانچہ آج کے اس دور میں بھی چاہے القاعدہ واسامہ بن لادن ہو، یا داعش و طالبان، یا جنہیں جنت کی حوریں بتاکر ان کے تجربہ کار بزرگ حضرات خودکش حملے تک کروادیتےہیں سب نوجوان لڑکے ہوتے ہیں، کبھی تو لڑکیوں تک کو استعمال کیا جاتا ہے۔
چاہے ابو الاعلی مودودی، سید قطب، حسن البنا، حافظ سعید ہوں یا انجنئیر علی مرزا و ساحل عدیم قسم کے لوگ سب کے زیادہ تر پیروکار، آلۂ کار اور کارکنان نوجوان ہيں۔ جگہ جگہ کالجوں، یونیورسٹیوں میں ان کی دینی سیاسی جماعتو ں کی یوتھ ونگ تنظیمیں ماحول بگاڑنے میں کسی سیاسی سیکولر و لسانی تنظیموں سے پیچھے نہ تھیں، پھر کچھ عرصہ ان پر پابندی لگی رہی تو اب ساحل عدیم جیسے لوگ ان تعلیمی اداروں میں جاجاکر اور میڈیا پر پاڈ کاسٹ وغیرہ کے ذریعے نوجوانوں کی ذہن سازی کرتے ہیں، خود کو موٹیویشنل اسپیکر باور کروا کر ان کے اندر اس غلط خارجی منہج کا زہر بھرا جارہا ہے جو انہيں انبیاء کرام اور سلف صالحین کے منہج سے دور جاپھینکتا ہے۔ جن طلبہ کی خیرخواہی چاہتے ہوئے انہیں صحیح دین کا علم کتاب و سنت اور منہج سلف صالحین سکھانے پڑھانے اور توحید و سنت و اتباع کی راہ پر لگانا چاہیے تھا ، اس کے بجائے تحریکی و انقلابی بناکر ان کی توانائیاں ضائع ہی نہيں امت کے نقصان کے لیے کھپانے میں کوشاں ہیں۔
ابن بطہ رحمہ اللہ کی ابانۃ الکبری رقم 33ج 1 ص 40 ط دار الکتب العلمیہ میں ابن شوذب رحمہ اللہ کا یہ قول مروی ہے کہ:
مِنْ نِعْمَةِ اللَّهِ عَلَى الشَّابِّ إِذَا تَنَسَّكَ أَنْ يُوَاخِيَ صَاحِبَ سُنَّةٍ يَحْمِلُهُ عَلَيْهَا
اللہ کی کسی نوجوان پر یہ بڑی نعمت ہے کہ جب وہ دین داری کی طرف آئے کہ وہ کسی اہل سنت کا دوست بنے جو اسے سنت پر چلانے میں مددگار ہو۔
مِنْ نِعْمَةِ اللَّهِ عَلَى الشَّابِّ وَالأَعْجَمِيِّ إِذَا نَسَكَا أَنْ يُوَفَّقَا لِصَاحِبِ سُنَّةٍ يَحْمِلُهُمَا عَلَيْهَا، لأَنَّ الأَعْجَمِيَّ يَأْخُذُ فِيهِ مَا سَبَقَ إِلَيْهِ
کسی نوجوان اور عجمی شخص پر اللہ کی بڑی نعمت ہے کہ جب وہ دین داری کی طرف آئے تو انہیں کسی اہل سنت کی رفاقت نصیب ہوجائے جو انہيں سنت پر چلانے میں مددگار ہو، کیونکہ بلاشبہ ایک عجمی اسی سے لیتا ہے جو اس کی طرف پہلے آیا ہوتا ہے۔
[جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ فلاں داعی کے ذریعے کوئی کافر سے مسلمان بنا یا کوئی مسلمان بے راہ روی کی زندگی سے دین داری کی طرف آیا ، حالانکہ وہ داعی خود صحیح عقیدے و منہج پر قائم نہ ہو، تو یہ شخص اپنے اس جذباتی لگاؤ اور اس کے احسان مند ہونے کی وجہ سے اسی کے منہج و مسلک پر چلتا رہتا ہے، اور اسے غلط کہنا اسے گوارا نہیں ہوتا]۔
عمرو بن قیس الملائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إِذَا رَأَيْتَ الشَّابَّ أَوَّلَ مَا يَنْشَأُ مَعَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ فَارْجُهُ، وَإِذَا رَأَيْتَهُ مَعَ أَهْلِ الْبِدَعِ فَايْئَسْ مِنْهُ، فَإِنَّ الشَّابَّ عَلَى أَوَّلِ نُشُوئِهِ
اگر تم ایک نوجوان کو دیکھو کہ وہ شروع سے ہی اہل سنت والجماعت کے ساتھ پروان چڑھتا ہےتو اس سے امید رکھو، اور اگر دیکھو کہ وہ اہل بدعت کے ساتھ (شروع ہوا ہے) تو اس سے مایوس ہوجاؤ، کیونکہ بے شک ایک نوجوان اسی چیز سے وابستہ رہتا ہے جس پر شروع میں وہ پروان چڑھا۔
اور فرمایا:
إِنَّ الشَّابَّ لَيَنْشَأُ، فَإِنْ آثَرَ أَنْ يُجَالِسَ أَهْلَ الْعِلْمِ كَادَ أَنْ يَسْلَمَ، وَإِنْ مَالَ إِلَى غَيْرِهِمْ كَادَ يَعْطَبُ
یقیناً ایک نوجوان پرورش پاتا ہے پس اگر وہ اہل علم کی مجالس کو ترجیح دیتا ہے تو قریب ہے کہ بچ جائے، اور اگران کے علاوہ غیروں کی طرف مائل ہوتا ہے قریب ہے کہ ہلاکت میں پڑ جائے۔
الشیخ (یعنی ابن بطہ) ان آثار کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
اللہ آپ پر رحم فرمائے تو اچھی طرح سے دیکھ لیں آپ کس کی صحبت اختیار کرتے ہیں، کس کے پاس بیٹھتے ہيں ، اس انسان کو اس کے قریبی ساتھی اور دوست کے ذریعے سے پہچانیں۔ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو فتنہ میں مبتلا لوگوں کی صحبت سے بچائے، اور ہمیں اور آپ کو فضول لوگوں کا بھائی بند اور شیاطین کا دوست یار نہ بنائے۔اللہ تعالی مجھے اور آپ کو گمراہی سے بچاؤ اور برے افعال سے عافیت عطاء فرمائے۔اھ
سلف صالحین کے منہج کے مطابق اہل علم کے کلام سے کتاب وسنت کی فہم سلف صالحین کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہمارے عقیدے و منہج کے کورس میں شرکت کیجیے۔