TariqBrohi

اہل سنت کے نزدیک فاسق حکمران اور پرہیزگار بدعتی کے معاملے میں فرق

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بعض لوگوں کو جو کہ سلفی عقیدے و منہج سے نابلد ہوتے ہيں (یا پھر ان میں سے بعض کو یہ گمان ہوتا ہے کہ انہيں سب کچھ پتہ ہے) یہ بات سمجھ نہيں آتی کہ سلفی بظاہر اتنے دین دار نہ ہونے والے حکمران کی تو  تائید و دفاع و معروف میں اطاعت پر زور دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف حکومت مخالف دین دار کہلائے جانے والے اور دینی جماعتوں اور شخصیات کا  رد کرتے اور ان سے لوگوں کو خبردار کرتے ہیں۔ یہ ان کا مشہور مقولہ ہے کہ:  (ان کے مطابق) لادین حکومت کے مقابلے میں آپ دینی جماعتوں کی تائید و نصرت کریں۔ بلکہ عرب کے تکفیری لوگ تو یہ تک کہتے ہیں اور آجکل دیسی حزبی بھی وہی راگ الاپنے لگے ہیں کہ:

یہ سلفی لوگ حکمران کے معاملے میں تو مرجئہ ہيں اور داعیان کے معاملہ میں خوارج!

یعنی ان کے لیے بے جا نرمی چاہے وہ جو کچھ کریں اور ان حضرات کے لیے شدید سختی چاہے جتنے پارسا نعرے ہوں!

حالانکہ الحمدللہ یہ صحیح امتیازی سلوک  کتاب و سنت کی روشنی میں منہج سلف صالحین کے مطابق سلفیوں نے اپنایا ہوتا ہے، جس کی چند ایک مثالیں پیش خدمت ہيں:

فتنوں سے متعلق مشہور حدیث حذیفہ  رضی اللہ عنہ  اور صحیح مسلم کتاب الامارۃ وغیرہ میں دیگر احادیث  اور ان کے علاوہ بھی موجود ہيں کہ جس میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے مسلمانوں کے امام حکمران سے جڑنے جبکہ ایسے حزبیات کی طرف بلانے والے داعیان سے کٹنے کا حکم دیا۔  ایک روایت میں ہے کہ:

’’يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟، قَالَ: تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ فَاسْمَعْ وَأَطِعْ‘‘[1]

(میرے بعد ایسے آئمہ (حکمران) آئیں گے جو میری ہدایت پر نہیں چلتے ہوں گے اور نہ ہی میری سنت کی پیروی کریں گے، اور عنقریب ان میں ایسے انسان کھڑے ہوں گے جن کے جسم انسانوں کے ہوں گے لیکن دل شیاطین کے دل ہوں گے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اگر میں ایسے حالات پالوں تو کیا کروں؟ فرمایا: اپنے امیر (حکمران) کی بات سننا اور اطاعت کرنا اگرچہ تیری کمر پر کوڑے مارے جائیں اور تیرا مال چھین لیا جائے، تو سننا اور اطاعت کرنا)۔

یہاں حکمران کو نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ہدایت وسنت پر نہ چلنے والا شیطان صفت اور ظلم کرتے ہوئے کرپشن بدعنوانی کا مرتکب مال ناحق چھیننے والا بتایا گیا، مگر پھر بھی اطاعت و صبر کا حکم۔

دوسری طرف دینی کہلانے والے داعیان اس کے کرپشن بدعنوانی کے خلاف انقلاب برپا کرکے تحریکیں چلانے والے ہونے کے باوجود ان سے بچنے اور انہیں جہنم کے دروازوں کی طر ف بلانے والے داعیان قرار دیا۔

صحیح بخاری کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ حذیفہ بن یمان  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:

”كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏وَفِيهِ دَخَنٌ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ وَمَا دَخَنُهُ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏صِفْهُمْ لَنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا، ‏‏‏‏‏‏وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ“[2]

 (لوگ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے خیرکی بابت سوال کیا کرتے تھے جبکہ میں آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے شر کے متعلق دریافت کیا کرتا تھا، اس خوف سے کہ کہیں وہ مجھے پانہ لیں۔ چنانچہ میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول !  ہم جاہلیت اور شر میں تھے  پس اللہ تعالی ہمارے لیے یہ خیر لے آیا ، تو کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ میں نے پوچھا کہ کیا اس شر کے بعد پھر سے خیر ہوگی؟  آپ نے فرمایا: ہاں لیکن اس میں دخن (دھبہ) (دلوں میں میل) بھی ہوگا۔ میں نے پوچھا: اس کا دخن کیا ہوگا؟ فرمایا: ایسی قوم ہوگی جو میری ہدایت کے علاوہ کسی اور ہدایت کو اپنا لیں گے، ان کی کچھ باتیں تمہیں بھلی معلوم ہوں گی اور کچھ منکر۔  میں نے کہا کہ کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہوگا؟ فرمایا: ہاں، ایسے داعیان ہوں گے جو جہنم کے دروازوں کی طرف دعوت دیں گےجو ان کی دعوت قبول کرلے گا وہ اسے جہنم واصل کروادیں گے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول! ہمارے لیے ان کے اوصاف بیان کریں؟ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: وہ ہماری ہی قوم میں سے ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولتے ہوں گے۔ میں نے کہا: آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مجھے کیا حکم دیتے ہیں اگر میں انہیں پالوں؟ فرمایا: تم جماعۃ المسلمین (مسلمانوں کی جماعت) اور ان کے امام کو لازم پکڑو۔ میں نے کہا: اگر ان کی کوئی جماعت ہی نہ ہو اور نہ ہی امام؟  فرمایا: تو پھر ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہوجانا اگرچہ تجھے درخت کی جڑیں چبا کر ہی گزارا کیوں نہ کرنا پڑے، یہاں تک کہ تجھے اسی حال میں موت آجائے)۔

صحیح مسلم  کتاب الامارۃ کی ابواب میں یہ حدیث 4784 آئی ہےاس کی شرح میں امام نووی  رحمہ اللہ  بھی اس حدیث پر یہ باب قائم فرماتے ہیں: ’’باب: وجوب ملازمة جماعة المسلمين عند ظهور الفتن وفي كل حال وتحريم الخروج على الطاعة ومفارقة الجماعة‘‘

(باب: ہر حال میں لزوم جماعۃ المسلمین  کا وجوب خصوصاً فتنوں کے ظہور کے وقت، اور (حکمران) کی اطاعت سے نکلنے اور جماعت سے مفارقت اختیار کرنے کی حرمت)۔

بعض لوگ ان گمراہ دعوتوں تحریکوں سے صرف سیاسی جماعتیں مراد لے رہے ہوتے ہیں جیسا کہ شیخ عبداللہ ناصر رحمانی اپنی شرح کتاب الامارۃ صحیح مسلم میں یہ مغالطہ دے رہے تھے،  حالانکہ ایسا نہيں، چنانچہ شیخ ربیع بن ہادی المدخلی  حفظہ اللہ  فرماتے ہیں:

پھر میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا اس حدیث میں جو یہ فرمان ہے کہ:

’’دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا‘‘ [3]

(جہنم کی طرف دعوت دینے والے داعیان ہوں گے، جو ان کی دعوت قبول کرے گا وہ اسے جہنم واصل کروادیں گے)۔

میرے خیال سے یہ وہی زمانہ ہے جس میں ہم   اب جی رہے ہیں۔ بہت سے داعیان ہیں جو جہنم کے دروازوں کی طرف دعوت دے رہے ہیں، نعرے اسلامی بلند کرتے ہيں لیکن ان کے عقائد میں بگاڑ ہے، ان کی دعوت بدعت وگمراہیوں او ربہت سے شر وبرائیوں کا ملغوبہ ہے، مغرب ومشرق، قدیم وجدید گمراہیوں کا اور تمام فرقوں کی گمراہیوں کا ملغوبہ ہے، اور ان میں کوئی عالم بھی نہیں۔

بعض لوگ کہتے ہيں کہ ان داعیان سے دراصل مراد قوم پرست وسیکولر لوگ ہیں! نہیں، ان کی دعوت تو کفریہ ہے جس کا اس امت (اسلامیہ) سے کوئی سروکار نہيں، لیکن یہ جن فرقوں کی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے بات کی یہ وہ فرقے ہیں جو اسلام کی طرف انتساب کرتے ہیں اور اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہوتا ہے، اور یہ وہ لوگ ہیں جو اسلامی نعرے بلند کرتے ہیں۔ اسی لیے تو فرمایا کہ:

’’وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا‘‘

(اور ہماری ہی زبان (یا طور طریقے) میں گفتگو کریں گے)۔

چاہے وہ عرب ہوں یا عجم وہ عربی زبان میں بات کریں گے یعنی قال اللہ، قال رسول اللہ! (ہی بیان کرتے ہوں گے)[4]۔

ایک اور حدیث سے تقابلہ دیکھیں عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللَّهُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي، إِلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ، وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ، ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ، يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ، وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ، فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الإِيمَانِ، حَبَّةُ خَرْدَلٍ‘‘[5]

(کوئی بھی نبی ایسا نہیں جسے اللہ نے مجھ سے پہلے کسی امت کی  طرف بھیجا ہو مگر یہ کہ اس کی امت میں سے اس کے حواری (ساتھی) اور صحابی  ہوا کرتے تھے جو ان کی سنت پر چلتے اور ان کے حکم کی اقتداء کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد ایسے نالائق جانشین آتے جو ایسی باتیں کرتے جن پر خود عمل نہ کرتے، اور وہ کام کرتے جن کے کرنے کا انہیں حکم ہی نہیں دیا گیا تھا۔ پس جس نے ان کے خلاف اپنے ہاتھ سے جہاد کیا تو وہ مومن ہے، اور جس نے ان کے خلاف اپنی زبان سے جہاد کیا تو وہ مومن ہے، اور جس نے ان کے خلاف  اپنے دل سے جہاد کیا تو وہ مومن ہے، اور اس کے بعد تو رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں)۔

اس حدیث کو بھی تکفیری خارجی حکمرانوں کے خلاف خروج کی دلیل بناتے ہيں جیسا کہ ڈاکٹر اسرار احمد حالانکہ اس سے صرف حکمران مراد نہیں بلکہ اہل بدعت سرفہرست ہیں جن میں خود ان جیسی خارجی جماعتیں شمار ہوتی ہيں کہ جو ان کے خلاف ان تین طریقوں سے  جدوجہد کرتا ہے وہ مومن ہے۔ جیسا کہ علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ  امیر المؤمنین نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی پیشنگوئی اور حکم کے موافق خوارج بدعتیو ں کے خلاف تلوار سے جہاد کیا، حالانکہ وہ بھی توحید حاکمیت کا نعرہ بلند کیا کرتے تھے۔

اور ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ فرمایا: جو کہتے ہیں وہ خود نہیں کرتے، جیسے اسلامی شریعت کے نفاذ کی بات کرتے ہيں حکمرانوں کی مخالفت کرنے کے لیے، حالانکہ خود اپنے عقیدے، منہج، عبادت و معاملات میں صحیح سلفی و سنی عقیدے و منہج پر یہ چلتے نہيں، اسی طرح سے فرمایا: جس چیز کا حکم ہی نہیں دیا گیا وہ کرتے ہيں، بالکل اقامت دین کے نعرے کے تحت خلافت، اسلامی ریاست، جہاد اور پتہ نہيں کیا کچھ عالمگیر پیمانے کے اہداف و مقاصد کا بوجھ عام بندوں پر ڈال رہے ہوتے ہیں، حالانکہ ان سے یہ مطالبہ ہے ہی نہیں ، ان سے تو مطالبہ پہلے سے موجود مسلمان حکمران کی معروف میں سمع و طاعت ہے۔ اور ناانصافی و نا اہل ہونے کی صورت میں خفیہ نصیحت اور دعاء ہے۔

مزید دیکھیں پہلی والی حدیث میں حکمرانوں کے لیے بھی یہ الفاظ استعمال ہوئے کہ:

میرے بعد ایسے آئمہ (حکمران) آئیں گے جو میری ہدایت پر نہیں چلتے ہوں گے اور نہ ہی میری سنت کی پیروی کریں گے، اور عنقریب ان میں ایسے انسان کھڑے ہوں گے جن کے جسم انسانوں کے ہوں گے لیکن دل شیاطین کے دل ہوں گے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اگر میں ایسے حالات پالوں تو کیا کروں؟

تو حکمرانوں کے تعلق سے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا جواب تھا:

 اپنے امیر (حکمران) کی بات سننا اور اطاعت کرنا اگرچہ تیری کمر پر کوڑے مارے جائیں اور تیرا مال چھین لیا جائے، تو سننا اور اطاعت کرنا۔

لیکن اس حدیث میں نہ آئمہ حکمرانوں کے لفظ ہے اور نہ وہ جواب دیا گیا ، ملاحظہ کیجیے:

۔۔۔پھر ان کے بعد ایسے نالائق جانشین آتے جو ایسی باتیں کرتے جن پر خود عمل نہ کرتے، اور وہ کام کرتے جن کے کرنے کا انہیں حکم ہی نہیں دیا گیا تھا۔

جیسا کہ اولیٰ الامر کی اطاعت کا قرآن میں حکم ہے، جبکہ حزب اختلاف بنانے کا حکم نہیں بلکہ منع کیا گیا ہے، اور یہ دینی جماعتیں اس کا الٹ کرتی ہیں۔

تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان کے ظلم و گمراہی پر صبر کا نہیں فرمایا، بلکہ فرمایا کہ:

پس جس نے ان کے خلاف اپنے ہاتھ سے جہاد کیا تو وہ مومن ہے، اور جس نے ان کے خلاف اپنی زبان سے جہاد کیا تو وہ مومن ہے، اور جس نے ان کے خلاف  اپنے دل سے جہاد کیا تو وہ مومن ہے، اور اس کے بعد تو رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں۔

تو الحمدللہ دونوں حالتوں میں فرق صاف واضح ہے اس کے لیے جو سنت اور سلف صالحین کے منہج کی طرف واقعی ہدایت چاہتا ہے  اور دل میں رائی کے دانے برابر ایمان ہے۔

شیخ صالح بن فوزان الفوزان  حفظہ اللہ     بھی حکمرانوں کی اطاعت اور ان دینی حزبیات سے بچنا ہی اختلاف سے بچاؤ کا سبب بتاتے ہیں، چنانچہ فرمایا:

حکمران کی اطاعت کرنا اختلاف سے بچاؤ کا راستہ ہے، اسی لیے حذیفہ بن الیمان  رضی اللہ عنہ  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سےفتنوں کے ظہور کی پیشنگوئی پر جب یہ سوال کیا: آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں اگر میں ایسے حالات پالوں؟ فرمایا:

’’تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ‘‘

(مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑو)۔

کیونکہ یہی فتنوں سے بچاؤ ہے اور اختلاف سے بچاؤ ہے۔ (جبکہ تفرقہ بازوں حزبیت پرستوں کے بارے میں) اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ(آل عمران: 105)

(اورکہیں ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اختلاف کیا اور تفرقہ بازی کی حالانکہ ان کے پاس واضح آیات ونشانیاں آچکی تھیں، ایسوں کے لیے بہت بڑا عذاب ہے)

پس اختلاف شر ہے اور اتفاق رحمت ہے[6]۔

الذریعہ الی بیان مقاصد کتاب الشریعۃ  ج 1 ص 125-126 میں شیخ ربیع المدخلی  حفظہ اللہ  فرماتے ہیں:

یہ خارجی راہ زن لٹیروں ڈاکوؤں سے زیادہ بدتر ہيں، کیونکہ وہ اسے دین سمجھ کر کرتے ہیں۔۔۔

ان خوارج سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے قتال کا حکم دیا ہے ان کے دین کے بگاڑ اور اللہ کے دین سے نکل جانے کی وجہ سے۔

اسی بات پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  نے فرمایا:

’’رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے (برے) حکام پر صبر کا حکم دیا جبکہ اہل بدعت کے قتل کا حکم دیا‘‘۔

کیونکہ اہل بدعت دین کو  بگاڑتے ہیں جبکہ حکام غالباً لوگوں کی دنیا ہی خراب کرتے ہيں، لیکن یہ لوگ تو ان کا دین، عقائد و عقل خراب کرتے ہيں۔ان کا شر وآزمائش زیادہ بڑی ہے۔ تو یہ ہے اصل اللہ کے دین کا فقہ۔

اللہ کے دین میں فقیہ وہی ہے جو اس فقہ و سمجھ والا ہو۔ البتہ جو خوارج کے طریقے پر چلتا ہو (تو اس کی فکر و نظریہ اس کے برعکس ہوتا ہے کہ) وہ حکمرانوں سے ٹکر لیتا ہے جبکہ اہل بدعت کو گلے لگائے بغل گیر ہوتا ہے، ان کی تعریف و پارسائی بیان کرتا ہے اور ان کا دفاع کرتا ہے۔ تو ایسا شخص طریقۂ محمدی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور طریقۂ سلف صالحین سے گمراہ ہوچکا ہے۔ جانتا ہی نہيں کہ کس طرح خود کو اور دوسرے مسلمانوں کو صحیح راستے پر چلائے۔اھ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  کے جس کلام کی طرف شیخ  ربیع  حفظہ اللہ  نے اشارہ فرمایا وہ یہ ہے۔

مجموع الفتاویٰ ج 28 ص 470-473 میں فرماتے ہیں:

اسی لیے آئمہ اسلام کا اتفاق ہے  کہ یہ غلیظ بدعات ان گناہوں سے زیادہ بدتر ہیں جن گناہوں کے مرتکب (کم از کم) اسے گناہ تو سمجھتے ہیں۔ سنت رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بھی اسی طرح سے برتاؤ کرتی ہے کہ آپ دیکھیں ایک طرف سنت کے مطابق خوارج سے قتال کا حکم دیا جبکہ دوسری طرف حکمرانوں کے ظلم و جور پر صبر کا، اور ان کے گناہوں کے باوجود ان کے پیچھے  نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ اور اپنے اصحاب میں سے بعض کے بارے میں جو بعض گناہوں پر بارہا ملوث  پائے جاتے یہ  گواہی دی کہ بے شک یہ اللہ اور رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے محبت کرتا ہے، اور انہیں لعنت کرنے سے منع فرمایا۔ جبکہ دوسری طرف ذوالخویصرہ (خارجی) اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں  ان کی عبادت و ورع (پرہیزگاری) کے باوجود  خبر دی کہ بلاشبہ وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے آر پار ہوجاتا ہے۔

۔۔۔یہ لوگ جمہور مسلمانوں کی تکفیر کرتے حتیٰ کہ عثمان و علی  رضی اللہ عنہما  کی بھی تکفیر کرتے۔ حالانکہ وہ اپنے گمان پر قرآن پرعمل کررہے ہوتے تھے، لیکن اس سنت رسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی اتباع نہيں کرتے تھے جو ان کے زعم کے مطابق  مخالف قرآن ہوتی، جیسا کہ تمام اہل بدعت کرتے ہيں اپنی کثرت عبادت و ورع کے باوجود(یعنی کہتے ہیں جو سنت ہمارے مطابق قرآن کے مخالف ہوگی ہم نہيں لیں گے) ۔

مزید  تفصیل کے لیے پڑھیں ویب سائٹ مکتبہ سلفیہ پر میرا ترجمہ کردہ  مقالہ ’’عبادت، علم وزہد کے باوجود ایک شخص خارجی ہوسکتا ہے ‘‘ از امام شمس الدين الذہبی  رحمہ اللہ ۔


[1] اخرجہ مسلم فی کتاب الامارۃ، باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین عند ظھور الفتن، حدیث رقم 4785۔

[2] صحیح بخاری7084۔

[3] أخرجه البخاري في كتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، حديث رقم (3606)، ومسلم في كتاب الإمارة باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين، حديث رقم 4784۔

[4] المجموع الرائق من الوصايا والزهديات والرقائق، ص 234۔

[5] صحیح مسلم 179

[6] شرح عقيدة الإمام المجدد محمد بن عبد الوهاب ص: 127-128۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے