استنتاجی طریقہ deductive method سے مراد ہے پہلے صرف و نحو (گرامر) کے قاعدے سکھائے جاتے ہیں، اس کے بعد ان کی مثالیں دی جاتی ہیں، پھر آخر میں اس کی مشق ہوتی ہے۔اس طریقے میں توجہ کا مرکز استاد ہوتا ہے۔
جبکہ استقرائی طریقہ inductive method براہ راست مثالوں سے شروع ہوتا ہے، پھر ان پر تھوڑا سا غور کرکے طلبہ خود گرامر کے قواعد تک رسائی حاصل کرلیتے ہيں۔ اس طریقے میں توجہ کا مرکز سیکھنے والے طلبہ ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں عام طور پر مدارس ہوں یا اسکول وہاں پہلا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوپاتے۔ گرامر کے قواعد یا ماضی ، حال و مستقبل کے صیغے tenses رٹ تو لیے جاتے ہیں مگر ان کےحقیقی زندگی میں روانی کے ساتھ صحیح طور پر استعمال سے طلبہ محروم رہتے ہیں۔
خواہ زبان عربی ہو یا انگریزی یا اس کے علاوہ ان سب کے تعلق سے فی زمانہ استقرائی طریقۂ کار ہی زیادہ کارآمد تصور کیا جاتا ہے۔ اور ترقی یافتہ تعلیمی اداروں میں اسی طرح کی کتب اور اساتذہ پر انحصار کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر غیر اہل زبان کو عربی سکھانے کے لیے مشہور زمانہ کتاب دروس اللغۃ العربیۃ جو مدینہ بکس کے نام سے مشہور ہیں، ان میں یہی استقرائی طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کے نہایت مفید ہونے کو ایک دنیا مانتی ہے۔
استقرائی طریقۂ تعلیم کے بعض نمایاں فوائد:
1- اس سے طلبہ میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے جو کہ کسی زبان کے استعمال کے لیے بنیادی عنصر ہے، اس طرح کہ وہ اپنی ہی تعلیم کے مرحلے میں فعال کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔
2- اس سے ان کے اندر مسائل کو حل کرنے کے لیے تجسس اور ناقدانہ صلاحیات پیدا ہوتی ہیں۔
3- اس طریقے کے نتیجے میں سیکھی جانے والی زبان سے بے پنہاں دلچسپی قائم ہونے لگتی ہے جو دیرپا رہتی ہے۔
4- اس طریقۂ تعلیم میں استنتاجی طریقہ کے بنسبت زیادہ لچک ہوتی ہے کہ ضرورت کے مطابق اسے ڈھالا جاسکے۔
5- جب طالبعلم خود ایک اصول تک مثالوں کے ذریعے رسائی حاصل کرلیتا ہے تو وہ اس کے ذہن میں زیادہ راسخ ہوجاتا ہے۔ بجائے اس کے کہ اس نے محض کسی اصول کی تعریفیں یاد کررکھی ہوں۔
6- اسے حقیقی زندگی میں اسی وقت استعمال کرنے سے کسی قاعدے کا صحیح تصور ان کے ذہن میں بیٹھ جاتا ہے ۔
استقرائی طریقے کی بعض حدود:
1- البتہ اس طریقے کی حدود بھی ہیں جیسے اس میں استنتاجی طریقے کے مقابلے میں نتائج تک پہنچنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔
2- یہ بنیادی زبان سیکھنے سے شروع کرنے والوں کے لیے تو بہترین ہے، البتہ اعلی ٰتعلیمی مراحل میں قواعد اور اصولوں پر مبنی مقررکردہ نصاب کی ضرورت پڑتی ہے۔
بعض دانشور حضرات ان دو طریقوں میں خاص فرق نہیں سمجھتے، اور کہتے ہیں کہ اصل کمی یا بہتری اس کے صحیح طور پر نفاذ کرنے اور محنت سے تعلق رکھتی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایک استاد کو چاہیے کہ وہ لغت کی تعلیم کے لیے دونوں طریقوں کا متوازن استعمال کرکے ان کے فوائد کو سمیٹ لے۔
مثال کے طور پر عربی کے لیے مدینہ بک سے شروع کرکے، اس میں مہارت کے بعد لغت کے روایتی رسالے الآجرومیۃ کی طرف پیش قدمی کرے۔
ہمارے عربی کورس میں اسی بات کو ملحوظ رکھا گیا ہے، شرکت کے لیے رابطہ کریں۔