معاشرے کی تعمیر و ترقی کا دارومدار علم کے ساتھ تعلق پرہے جس کا اولین ذریعہ معلم کے ساتھ ساتھ کتابیں بھی ہیں۔
زمانے میں جدت آنے کے ساتھ ساتھ کتابوں کی اشاعت کے بھی نت نئے طریقے وجود میں آتے گئے یہاں تک کہ اب انٹرنیٹ کی دنیا میں جس طرح خطوط کی جگہ ای میلز نے لے لی ہے، اسی طرح کتابی صورت میں شائع کردہ کتب کے ساتھ ساتھ برقی کتب (ای بکس) بھی شہرت حاصل کرچکی ہيں۔ باقاعدہ ایسے مصنفین ہیں جو صرف اپنی ای بکس ہی نشر کرتے ہیں، اسی طرح ایسی کمپنیاں اور ویب سائٹس بلکہ خاص ڈیوائسس بھی ہیں جو ای بکس پڑھنے کی غرض سے بنائی گئی ہیں۔ کیونکہ زیادہ دیر تک اسکرین کو تکنا آنکھوں اور صحت کے لیے مضر ہے، اس وجہ سے اس میں نئی ٹیکنالوجی کو متعارف کروایا جارہا ہے جس سے اس مسئلے پر بھی قابو پایا جاسکے۔
اگرچہ شائع کردہ کتابو ں کی اہمیت کا انکار نہیں، نا ہی اسے چھو کر دیکھ کر قاری کا جو دلی ربط پیدا ہوتا ہے اور توجہ بٹانے والے عناصر کی بھی اتنی آمد و رفت نہیں ہوتی جس طرح موبائل وغیرہ میں notifications اور messages وغیرہ کی بھرمار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علماء نے مصحف میں سے دیکھ کر قرآن پڑھنے کو موبائل میں سے دیکھ کر پڑھنے سے بہتر قرار دیا ہے۔ ان تمام باتو ں کے باوجود ای بکس کی بعض خصوصیات ، فوائد اور ملاحظات مندرجہ ذیل ہیں:
1- اس کی چھپائی پر بہت کم یا کوئی بھی خرچہ نہيں ہوتا۔ جبکہ چھاپہ خانے سے کتابیں شائع کرنے پر مختلف مراحل میں خرچے ہوتے ہیں۔ ہاں بجلی، کمپیوٹر،انٹرنیٹ، سافٹ وئیرز، ویب سائٹ وغیرہ کا خرچہ اپنی جگہ ہے۔
2- اس کے خستہ حال ہوکر پھٹنے یا خراب ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں۔
3- بغیر کسی اضافی خرچے کے جتنی چاہیں اس کی کاپیاں تاحیات لوگوں میں تقسیم کرتے رہیں۔
4- اسے مختلف ڈیوائسس پر اپنی سہولت کے مطابق چلتے پھرتے، یا کسی بھی جگہ موقع میسر آنے پر پڑھا جاسکتا ہے۔
5- اس میں آسانی سے سرچ اور یادداشت bookmark کرکے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
6- اس میں نہ صرف تحریری اور تصویری مواد ہوتا ہے بلکہ اس میں مختلف لنکس، آڈیو، ویڈیوز وغیرہ تک شامل کی جاسکتی ہیں۔
7- نقل و حمل میں بے حد آسانی ہوتی ہے، آپ ہزاروں کتابوں کا پورا مکتبہ/ لائبیریری اپنی ایک چھوٹی سی ڈیوائس میں لے کر جہاں چاہیں گھوم پھر سکتےہیں۔
8- اس کی اشاعت اور ایڈیشن ختم نہيں ہوتے، جس طرح بازار میں مکتبات سے کتابو ں کی اشاعت ختم ہوجاتی ہیں۔ بلکہ کچھ کتابیں تو بعد میں نشر ہی نہیں ہوتیں، جس سے وہ ناپید ہوجاتی ہیں۔
9- دن بدن کاغذ مہنگا ہوتا جارہا ہے جس سے اس کی چھپائی میں بہت خرچہ ہوتا ہے، ساتھ ہی یہ ماحولیات اور جنگلات کے لیے نقصان دہ ہے۔ [اس اعتراض کا جواب یہ بھی دیا جاتا ہے، بلکہ الیکٹرانک ڈیوائس کی تیاری ، پیداورا اور استعمال ماحولیات اور انسانی صحت کے لیے کاغذ کی بنسبت زیادہ مضر ہے، کیونکہ درخت تو قدرتی طور پر دوبارہ اگ جاتے ہیں جو ماحولیات، آکسیجن اور انسانی صحت کے لیے نہایت ضروری ہیں]۔
10- ای بکس کو نشر کرنا اتنا آسان ہے کہ ایک مصنف خود ہی اسے لکھ کر پی ڈی ایف بنا کر انٹرنیٹ پر اس کی تشہیر کرکے خود ہی گاہک کو ارسال کرسکتا ہے، اسے دیگر کتابو ں کی طرح ناشرین اور تقسیم کار لوگوںdistributors اور مکتبات کی ضرورت نہیں رہتی، جو وقت بھیزیادہ لیتی ہیں، خرچے کے علاوہ اس تیزی سے روابط والے دور میں اس کی کارگردگی بھی پست ہوتی ہے۔
11- اس کے اسٹاک کو رکھنے کے لیے جگہ کی بھی ضرورت نہيں، جس طرح چھاپی گئی کتابوں کے اسٹاک کو سنبھالنا اور کئی عرصے تک ان کی فروخت نہ ہونے پر اپنے پاس رکھنا ایک کٹھن عمل ہے۔ جب تک وہ دکان پر رکھی ہے اس کی کوئی قیمت آپ کو وصول نہیں ہورہی جبکہ اس پر جگہ اور وسائل جیسے بجلی وغیرہ کا خرچ مسلسل چل رہا ہے۔
12- چھاپی گئی کتابیں مکتبہ، کتب خانہ یا لائبریری میں جاکر لینی پڑتی ہے، اور آن لائن بھی کورئیر وغیرہ کے ذریعے منگوانی پڑتی ہے۔ جبکہ ای بک تو جب چاہے لینے والا بآسانی لے لیتا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو، اور آپ(کتاب کے مصنف) مزے سے سور رہے ہوتے ہيں یا کسی سفر میں ہوتے ہیں۔
13- یہ کتابیں کبھی out of print نہیں ہوتيں، اور بہت سی تو مفت بھی رکھی جاتی ہیں۔
14- ای بکس کے فونٹس، بیک گراؤنڈ، روشنی وغیرہ کو اپنی سہولت کے مطابق تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے۔ جس سے بڑی عمر کے یا کسی طرح کے معذور افراد بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
15- مشکل الفاظ کے معانی لگے ہاتھوں انٹرنیٹ سرچ سے ایک کلک میں معلوم ہوجاتے ہیں، بلکہ اب تو اے آئی وغیرہ بھی سب میں دستیاب ہوتا ہے۔ اور نہ صرف اس لفظ کی تعریف بلکہ اس کی تاریخ، استعمال اور دیگر متعلقہ معلومات غرض پورا وکی پیڈیا آپ کے سامنے آجائے گا۔معیاری ڈکشنری کے علاوہ باکثرت استعمال ہونے والے عامیانہ یا روز بروز آنے والی ٹیکنالوجی یا اس کے علاوہ دیگر اصطلاحات کا بھی علم ہوجاتا ہے۔
16- اب ترجمہ کی ترقی یافتہ سہولیات کے باعث پوری کتاب کو بھی لمحوں میں گوگل ٹرانسلیٹ کے ذریعے، یا اگر یونی کوڈ میں فونٹس نہ ہوں تو گوگل لینس کے ذریعے اپنی زبان میں ترجمہ کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ وہ سو فیصد درست تو نہیں ہوگا لیکن بات کا خلاصہ اور مفہوم سمجھ جانے کے لیے کافی ہوگا۔
17- ای بکس کو text to speech آڈیو میں بھی سنا جاسکتا ہے۔
18- ای بکس کی قیمتیں بھی بہت معمولی ہوتی ہیں جیسے صرف 0.99$ یا اس سے بھی کم۔ا س میں بھی مصنف پبلشر کا فائدہ ہی ہے کہ اسے کتابیں چھپوا کر، اسٹاک کرنے، پھر فروخت و غیرہ کے مختلف مراحل پر ہونے والے خرچوں سے نجات مل ، جاتی ہے، ساتھ ہی کتاب تو ہمیشہ ہی انٹرنیٹ پر دستیاب موجود رہتی ہے، یعنی خواہ سالوں بیت جائيں پھر بھی وہ فروخت ہوتی رہے گی۔
19- ایک خدشہ یہ رہتا ہے اور حقیقت ہے کہ انٹرنیٹ پر دستیاب کتب جلد ہی پائیریٹڈ کاپیاں بن کر یہاں وہاں شئیر ہونے لگتی ہے، بظاہر تو لگتا ہے کہ اس سے مصنف کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے، پھر اس سے کون خریدے گا۔ حالانکہ تھوڑا غور وفکر کیا جائے تو اگر وہ اس کتاب کو چھاپ کر بھی فروخت کرتا تو کئی لائبریریاں اسے خرید لیتی ہيں جہاں لوگ ویسے بھی مفت میں اسے پڑھتے ہيں یا گھر کے لیے مستعار لے جاتے ہيں۔لہذا بہت سے اگر مفت میں حاصل کرکے ای بک کو پڑھ بھی لیں تو کچھ ایسے بھی ہوں گے جو اسے خریدیں گے، بہرحال آپ کو کبھی نہ کبھی اس کی محنت وصول ہوتی رہے گی، ساتھ ہی اگر آپ کا کام واقعی قابل تعریف ہے تو پھر چاہے مفت میں عام ہوجائے شہرت کا ہی سبب بنے گا۔
20- عقل مندی کا تقاضہ بھی یہ ہے جب کتاب کو لکھا بھی کمپیوٹر کے ذریعے ڈیجیٹل طور پر ہے تو اسے پڑھا اور فروخت بھی اسی ذریعے سے کیا جائے اور اپنے کام کا مکمل معاوضہ مصنف ہی حاصل کرلے، ناکہ بیچ میں اتنے لمبے چوڑے خرچے دوسرے لوگوں کو دیے جائيں۔
ہاں، اگر تفصیل میں جائيں تو ظاہر ہے چھپی ہوئی کتاب کو اسیکن یا کیمرے کے ذریعے ای بک بنایا جاسکتا ہے، اسی طرح ای بکس کو پرنٹر سے پرنٹ کرکے چھاپا بھی جاسکتا ہے۔
21- ای بک میں کچھ محدودیت یہ ہوسکتی ہے کہ ڈیوائس کو چارج کرنا پڑتا ہے، اس کے لیے بروقت بجلی کی فراہمی بھی ضروری ہے۔ اسی طرح اگر چھاپی ہوئی کتاب خستہ حال ہوکر پھٹ سکتی ہے تو کمپیوٹر یا ڈیوائس بھی خراب ہونے کے امکانات رہتے ہيں۔
22- بعض لوگ خصوصاً بڑی عمر کے کتابی شکل میں ہی پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ آپ دونوں طرح سے اپنی کتابیں نشر کریں تاکہ ہر طرح سے آپ کی فروخت میں اضافہ ہوتا رہے اور کوئی قاری محروم نہ ہو۔
23- بہت سے لوگ جو کتابوں کی اہمیت کے بارے میں خاصے حساس ہوتے ہيں ای بک کو حقیقی نہیں سمجھتے، اور اگر کسی مصنف کی باقاعدہ شائع ہوئی کتاب دستیاب نہ ہو تو اسے چھوٹا ہی سمجھا جاتا ہے۔
24- کتاب میں اگر کسی غلطی کی تصحیح یا اضافہ جات کرنے ہوں تو اسے واپس سے چھاپنا آسان نہيں، جبکہ ای بک میں اسے فوری طور پر تجدید (اپ ڈیٹ) کیا جاسکتا ہے۔
25- آن لائن مواد کے بارے میں مکمل تجزیات بھی موصول ہوتے ہیں کہ کون اور کہاں سے اور کتنا آپ کی کتابوں میں دلچسپی رکھتے ہيں، جس سے اصلاحات کرنے میں رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔
26- ای بک تیزی سے شائع ہونے کا یہ بھی فائدہ ہے کہ اگر کوئی موضوع حالات حاضرہ سے متعلق ہو تو فوری طور پر اس سے متعلق تبصرے و تجزیے شائع ہوسکتےہیں، جبکہ کتاب چھاپنے میں وقت لگنے سے ہوسکتا ہے اس موضوع کی اہمیت ختم ہوچکی ہو۔ کیونکہ فوری طور پر تازہ ترین حالات حاضرہ اخبارات کے شائع کرنے کا کام ہے، کتابیں اس سلسلے میں وہ کردار ادا نہيں کرسکتیں۔
27- ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ای بک تو کوئی خاص قابل منتقل ورثہ نہيں برخلاف کتابی صورت میں چھپی کتابوں کے۔
28- ای بک کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اگر آپ کی کتاب محض کچھ صفحات پر مشتمل ہے، تو وہ انٹرنیٹ پر معیاری قیمت پر فروخت ہوسکتی ہے، لیکن اگر آپ اس چند صفحات کی کتاب کو باقاعدہ کتابی صورت میں شائع کروانا چاہیں گے تو وہ بہت زیادہ مہنگی پڑے گی۔
29- ای بک سے یہ بھی فائدہ ہوسکتا ہے کہ کتابی صورت میں شائع کرنے سے پہلے ہی آپ کو لوگوں کا رجحان، رد عمل اور دلچسپی معلوم ہوسکتی ہے کہ اسے شائع کیا جائے یا نہیں۔
30- فی زمانہ تو KDP اور دیگر ویب سائٹس کے ہوتے ہوئے اس بات کی پریشانی ہونی ہی نہیں چاہیے کہ ای بک کے طور پر شائع کیا جائے یا پرنٹ کرکے، کیونکہ وہ آپ کی کتاب کی ایک کاپی بھی مطالبے پر چھاپ کر قاری کو بھیج دیتے ہیں، جسے print on demand کہا جاتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مختلف لوگ اپنی اپنی ترجیحات کے اعتبار سے ای بک یا پرنٹ شدہ کتاب کو فوقیت دیتے ہیں، اور بطور مصنف اس جدید دور میں اپنے آپ کو محدود رکھنے کی ضرورت نہیں جبکہ ہم بآسانی دونوں ذرائع ا ستعمال کرسکتے ہیں۔
بہت جلد ہماری ویب سائٹ پر بھی ا ی بکس دستیاب ہوں گی۔ جنہیں نہایت معمولی قیمت پر خریدا جاسکتا ہے۔