بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ نے کبھی دیکھا ہوگا کہ کس طرح مداری ڈگڈگی بجا کر بندر کو نچا کر اس تماشے کے ذریعے پیسے کماتا ہے، لیکن بندر کو بس کچھ چنے وغیرہ دے کر خوش کردیتا ہے۔
نہایت افسوس کی بات ہے کہ بہت سےرفاہی دینی ادارے، مساجد، مراکز و اوقاف کا بھی یہ ہی حال ہے۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک سلفی استاد شاید درددل کے مارے کسی غیرسلفی مولوی کا واٹس ایپ اسٹیٹس لگائے ہوئے تھے کہ کس طرح یہ ادارے والے مہتم حضرات اور کرتا دھرتا خود تو آزائشوں میں امیر سے امیر تر ہوتے جاتے ہيں جبکہ جن استاتذہ، مدرسین، داعیان، پڑھنے والے بچے اور یتامیٰ کی وجہ سے اور انہیں دکھا دکھا کر انہیں فنڈز یا چندے ملتے ہیں وہ بیچارے بدحالی اور تنگی میں ہی زندگی گزارتے ہیں۔ بہرحال استاد محترم کا کسی غیرسلفی کی پروموشن کا ذریعہ بننا ایک ناعاقبت اندیشن عمل تھا، جس کی انہوں نے نصیحت کیے جانے پر فوری اصلاح فرمائی، جزاہ اللہ خیرا۔
مگر اس کا نعم البدل کسی سلفی کی جانب سے اس پہلو کی طرف توجہ مبذول کروانا بھی ضروری تھا، لہذا اسی موضوع پر کچھ عرض کرنے کی جسارت کروں گا، اللہ تعالی سب کو اس عمل کی توفیق دے جسے وہ پسند فرماتا ہے اور اس سے راضی ہوتا ہے۔
میرے دل میں خیال گزرا کہ کچھ عرصہ میں نے راولپنڈی کی ایک مسجد میں تدریس و خطابت کی ذمہ دار ی سنبھالی تھی، وہاں ایک عجیب و غریب واقعہ وقوع پذیر ہوا کہ بظاہر دکھنے میں معقول سے حلیے میں ایک شخص بیچ درس کے چلانے لگا کہ مسجد کے اماموں کی تنخواہ اتنی اتنی ہونی چاہیے! میں حیران اسے کیا ہوا۔۔۔بعدازیں ایک دوست نے اسے پہچان لیا اور بتایا کہ یہ تو نہایت سلجھا ہوا انسان ہوا کرتا تھا بلکہ میرے ساتھ اس نے ایک کاروباری معاملہ بھی کیا تھا، اس کا یہ حشر کیسے ہوا!
اللہ جانے، کہیں اسی قسم کے استحصال پر مبنی حالات سے تو بیچارے کو نہيں گزرنا پڑا!
مرے خلوص کا یاروں نے آسرا لے کر
کیا ہے خوب مری دوستی کا استحصال حنیف کیفی
چلیں موضوع کی طرف آتے ہیں۔
یہ المیہ صرف ہمارے برصغیر وغیرہ کے پسماندہ یا ترقی پذیر ممالک کا نہيں بلکہ عرب ممالک ہوں یا مغربی ممالک ، ہر جگہ اسی ڈگر پر زور و شور سے عمل ہورہا ہے۔
یعنی جن لوگوں کے کارناموں کی وجہ سے کسی ادارے پر لو گ اعتماد کرکے ان کی مالی اعانت کرتے ہیں، ان ہی لوگوں کو بنیادی ضروریات کے لیے بھی ترسا کر رکھا جاتا ہے۔ جبکہ ادارے چلانے والے نہ صرف عیش و عشرت میں پلتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے فارغ البالی کا سامان کرجاتے ہیں، کیونکہ:
گرفتار ہے جو تری زلف کا
وہ ہر قید سے فارغ البال ہے قائم چاندپوری
جیسے ہمارے ہاں بہت آسان ہے کہیں آفت آجائے مسلمانوں پرتو ان دینی جہادی جماعتوں کے کیمپ فوراً لگ جاتے ہیں، اور ایسے مقبوضہ علاقوں کی عوام کے نام پر مانگ رہے ہوتے ہیں جہاں خود یہ اچھی طرح جانتے ہیں ہماری کوئی رسائی نہيں۔ ایک بندے نے تو حد کردی کہ فلسطین میں عید ہوچکی تھی پاکستان میں بعد میں تھی اور وہ ابھی تک کھڑے ان کے لیے فطرانہ مانگ رہے تھے!
ایسے لوگوں، جماعتوں اور اداروں کا کون احتساب کرتا ہے۔ یہ بھی مداریوں کی طرح مظلوم مسلمان عورتوں بچوں کی تصاویر دکھا کر اپنی جیبیں بھرتے ہیں، بلکہ بعض تو اب اے آئی ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کرنے لگے ہیں، بچے کی ماں فل میک اپ میں تروتازہ کھڑی ہے، بچہ جل بھن گیا ہے، جسمانی اعضاء او رعمارتوں کی تصویر میں قدرتی توازن بھی نہيں، کچھ بیوقوف تو اے آئی کا لوگو بھی ہٹانا بھول جاتے ہیں۔ ان دھوکہ بازوں کو کوئی فنڈ میں اصل پیسوں کے بجائے صرف نوٹوں کی تصویر بھیج دے تو کیا رد عمل ہوگا!
سننے میں آیا کہ کسی نے خوب مذاق کیا تھا کراچی میں اسی طرح کا ، جب جماعت غرباء اہلحدیث کی طرف سے فتویٰ مشہور ہوا کہ حدیث میں ہے جو جمعہ کو آخر میں آئے تو کم از کم انڈے کی قربانی کا ثواب ملتا ہے، جس سے ثابت ہوا کہ انڈے کی بھی قربانی جائز ہے، کسی من چلے نے عید پر فون کرکے انہيں کہہ دیا کہ آکر کھال لے جائيں، یہ خوشی خوشی گئے تو انڈے کے چھلکے دے دیے!
انہی دینی مداریوں کی کئی برس پہلے کارستانی ایک سلفی افغانی دوست بتارہا تھا کہ ایک بہت بڑی عظیم اہلحدیث شخصیت و محدث کے نام پر ایک مدرسہ کراچی میں قائم ہے، وہاں کے مہتمم اعلیٰ بھی شہر کی جانی پہچانی شخصیت ہیں، دوست وہاں کافی عرصہ مدرس بھی رہا، آنکھوں دیکھا حال بتاتاہے کہ بچوں کی پڑھائی پر کوئی توجہ نہیں پاکستان کے دور دراز علاقوں سے یتیم بچوں کو حفظ قرآن کے بہانے جمع کیا ہوا ہے، والدین بھی مجبور کہ چلو کھانا پینا کچھ مل رہا ہے گزارا ہورہا ہے، تو وہ بتاتے ہيں جب کبھی کوئی نامور شخصیت دورے پر یہاں آنے والی ہوتی جن سے بھاری فنڈنگ کی امید ہوتی تو بچوں کو اچھی طرح فوٹو سیشن کے لیے تیار کیا جاتا تاکہ یہ تاثر جائے کہ بڑی تندہی سے تدریسی عمل جاری و ساری ہے۔
یقین مانیں اکثر جگہوں پر یہی نظام چل رہا ہے کہ ادارہ چلانے والے مہتمم حضرات اپنی زندگیاں آسودہ حال کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور بہت سے لوگوں کے اندر چونکہ دینی جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، جب انہیں دین، دعوت، علم، تبلیغ، صدقۂ جاریہ، خدمت خلق کے حوالے دیے جاتے ہیں تو وہ بیچارے اپنی آخرت کمانے او رضرورت مندوں کے کام آنے کے جذبے میں ان پر اعتماد کر کے ان سے معاونت جاری رکھتے ہیں۔
حالانکہ ان اداروں کا فرض بنتا ہے کہ جو اپنے لیے پسند کریں وہ ہی اپنے ان بھائیوں کے لیے پسند کریں جو ان کی اس مشنری کو چلانے، قابل اعتماد بنانے اور ان کی ساکھ کو برقرار رکھنے کا ذریعہ بنتے ہیں جیسے مدرسین، اساتذہ، داعیان، معاون عملہ وغیرہ۔
اس کا نتیجہ یہ ہی نکلتا ہے کہ دینی دعوت میں وہ اثر پذیری اور برکتیں محو ہونا شروع ہوجاتی ہیں، اندرونی تناؤ بڑھتا اور خیرخواہانہ جذبات ماند پڑتے جاتے ہيں۔ بلکہ اگر جائے کہ ایک لاوا پکتا رہتا ہے تو بےجا نہ ہوگا جس میں کچھ گھٹ کر دم توڑ جاتے ہيں اور کچھ آخرکار پھٹ پڑتے ہیں۔
یہ بھی ہوتا ہے کہ جب تک کسی کو ہوش آئے اس کے پر کاٹ دیے گئے ہوتے ہیں، پھراوپر والی سرکار حیرت سے سوچتی ہے دعوت کیو ں نہيں چل رہی؟!
جناب دعوت دیواروں سے نہيں اللہ کی توفیق کے بعد داعیان سے چلتی ہے، اور داعیان شاید شیخ چیٹ جی پی ٹی ہوتے ہیں جنہيں کھانے پینے اور ضروریات زندگی کی حاجت نہیں ہوتی!
آخر اس کا حل کیا ہے؟
اس کے دو حل ممکن ہے، جن میں سے ایک تقریبا ًناممکن بنادیا گیا ہے!
پہلا تو یہ ہے کہ ایسے اداروں کے بڑے اپنی اصلاح سے کام شروع کریں اور جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں وہ ہی اپنے معاونین کے لیے پسند کریں۔ جی ہاں ، انہیں خدمت گار سمجھنے کے بجائے معاونین سمجھا جائے!
دعوت کی تو بنیاد ہی یہ ہے کہ : اے ایمان والو! نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔
کیونکہ اس قسم کی اخلاقی برائیاں دوسری اخلاقی برائیوں کو جنم دیتی ہيں، جس کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑتا ہے، جیسے ظلم، استحصال اور حق تلفی کے نتیجے میں ہوسکتا ہے غیبت کا بازار گرم رہے۔
میں اسے تقریباً ناممکن اس لیے تصور کررہا ہوں کیونکہ مفادات اور خود غرضی ختم ہوجانا آسان نہیں، جبکہ یہ اس قدم کو اٹھانے کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔
دوسرا حل جو زیادہ پائیدار اور پروقار ہے وہ یہ ہے کہ ایسے داعیان و مدرسین وغیرہ کو خودی کو بلند کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ وہ آزاد ہوکر اپنے دین اور دنیا، گھرانے اور ملک و قوم کی بہتر خدمت انجام دیں۔ او رپھر ایسے آزاد اور خود مختار داعیان آپس میں نیکی اور بھلائی میں تعاون جاری رکھیں۔
آخر جس توحید، توکل، ایمان، مخلص کوشش کرنے والوں کے لیے اللہ کی مدد کی ضمانت وغیرہ کا وہ لوگوں کو درس دیتے رہتے ہيں اسے سب سے پہلے خود اپنے آپ پر نافذ کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی تقویٰ لازمی اختیار کریں تو پھر دیکھیں کیسے رب تعالی ان کی مدد فرماتا ہے اور ایسی جگہ سے رزق کے دروازے کھول دے گا جہاں ان کا وہم و گمان بھی نہیں ہوگا۔
بارک اللہ لنا ولکم