TariqBrohi

کافروں سے کون سے معاملات جائز ہیں؟ – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الولاء والبراء یعنی اللہ کے لیے دوستی اور دشمنی کا مسئلہ نہایت اہمیت کا حامل ہے اور ایک مسلمان کے عقیدے سے براہ راست منسلک ہے، شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اپنے رسالے الاصول الثلاثہ میں فرماتے ہيں کہ صرف توحید و سنت اپنا کر شرک و بدعت سے اجتناب کرلینا کافی نہیں بلکہ پھر اہل توحید و سنت سے محبت اور اہل شرک  و بدعت سے نفرت و دشمنی بھی ایک ضروری امر ہے جو آپ کو ادا کرنا ہے تب جاکر آپ حقیقی موحد اور سنت پر چلنے والے شمار ہوں گے۔

اس کی تشریح سے متعلق دلائل آپ سلفی علماء کرام کی کتابوں اور شروحات میں پڑھتے رہتے ہیں۔ مگر بعض تکفیری اخوانی قسم کے انقلابی سیاسی جہادی خلافتی وغیرہ لوگ ان کے غلط مفاہیم بیان کرکے معاملے کو خلط ملط کردیتے ہیں، اور جو چیزیں دلی محبت، دوستی اور الولاء میں شامل نہيں زبردستی اس میں باور کرواکر حکمرانوں کے خلاف خروج کی راہیں ہموار کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہيں۔ اسی سلسلے میں اس کی شرح کرتے ہوئے شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

اور یہ مسئلہ جو کافروں سے دشمنی عداوت اور عدم موالات(محبت  ودوستی نہ کرنے) کا ہے  اس کا یہ تقاضہ نہيں ہے کہ ہم کافروں سے دنیاوی امور اور فائدوں میں  بھی بائیکاٹ کرلیں، بلکہ اس سے مستثنیٰ کچھ باتیں ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

1-  ہمارے ان سے بغض رکھنے اور دشمنی کرنے کے باوجود ہم پر واجب ہے کہ ہم انہیں اللہ تعالی کی طرف دعوت دیں، واجب ہے کہ ہم انہیں دعوت الی اللہ کریں ، اور یہ کہتے ہوئے انہیں نہ چھوڑ دیں کہ یہ تو اللہ کے اور ہمارے دشمن ہیں۔ بلکہ ہم پر واجب ہے کہ ہم انہیں  اللہ تعالی کی طرف بلائيں ہوسکتا ہے وہ انہیں ہدایت عطاء فرمائے۔اگر وہ اسے نہیں مانتے تو بلاشبہ ہم  قدرت و طاقت کی صورت میں ان سے قتال کریں گے، یا تو وہ اسلام میں داخل ہوں یا پھر ذلیل ہو کر جزیہ دیں اگر وہ یہود و نصاریٰ اور مجوسیوں میں سے ہوں، اور اسلام کے حکم کے آگے جھک جائيں، پھر انہيں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا۔ لیکن شرط ہے کہ وہ جزیہ دیں اور حکم اسلام کے سامنے جھک جائيں۔  ہاں اگر وہ اہل کتاب یا مجوسیوں میں سے نہ ہوں تو پھر ان سے جزیہ لینے کے تعلق سے اہل علم میں اختلاف ہے۔ [خلاصہ یہ ہے کہ یہ بات حکمران کے اجتہاد و صوابدید پر منحصر ہے جس سے اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ ہو، اللہ اعلم]

2- ضرورت کے تحت کافروں سےجنگ بندی کے معاہدے کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں یعنی اگر مسلمانوں کو ان سے معاہدے کرنے کی ضرورت پڑ جائے اس طرح کہ مسلمان اس وقت قتال کرنے کی قدرت نہ رکھتے ہوں اور ان کے شر سے مسلمانوں کو خطرہ لاحق ہو، تو پھر معاہدہ کرلینے میں کوئی حرج نہیں یہاں تک کہ مسلمان ان کے خلاف قتال کرنے کی طاقت حاصل کرلیں یا پھر وہ لوگ خود معاہدہ طلب کرنے پر اتر آئیں:

وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا

اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کی طرف جھک جاؤ۔[الانفال: 61]

پس وہ ان سے معاہدہ کرسکتے ہیں لیکن یہ دائمی معاہدہ نہیں ہوگا بلکہ مصلحت کے پیش نظر وقتی اورمعینہ مدت کے لیے ہوگا[یا دائمی نہيں البتہ غیرمعینہ مدت کے لیے] جو مسلمانوں کے امام (حکمران) کی رائے پر منحصر ہے ۔

3- اس میں بھی کوئی مانع نہیں کہ وہ جو اچھائی  مسلمانوں کے ساتھ کریں تو ہم اس کا بدلہ انہیں چکائيں، احسان کا بدلہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ

اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا کہ تم ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کا معاملہ کرو، بے شک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔[الممتحنہ: 8]

4- مسلمان اولاد پر کافر والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا واجب ہے لیکن وہ کفر میں ان کی اطاعت نہیں کریں گے کیونکہ فرمان باری تعالی ہے:

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ ۚ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰي وَهْنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ  ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ، وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰٓي اَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۙفَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا ۡ وَّاتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ

اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں تاکیدی حکم دیا،  اس کے حمل کو اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری میں اٹھائے رکھااور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے، کہ تم میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی، میری ہی طرف لوٹ کرآنا ہے۔ اور اگر وہ تم پر دباؤ ڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرو جس کا تمہیں کوئی علم نہیں تو پھر ان دونوں کا کہا مت مانو، اور ایسے شخص کی راہ پر چلو جو میری طرف رجوع لاتا ہے۔[لقمان: 14-15]

والدین کا حق ہے چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں، لیکن ان سے آپ دلی محبت نہیں کریں گے، بلکہ اپنی پرورش کے بدلہ چکائيں گے اور اس لیے کہ وہ والدین ہیں اور ان کا حق ہے جس کا آپ بدلہ چکاتے رہیں گے۔

5- ان سے تجارتی تبادلہ اور خرید و فروخت  جائز ہے، ضرورت کی چیزیں ان سے خریدنا اور قیمت کے عوض ان سے چیزیں اور اسلحہ درآمد کرنے میں کوئی حرج نہيں۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے کافروں سے معاملات فرمائے تھے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اہل خبیر جو کہ یہودی تھے ان سے معاملہ کیا تھا کہ وہ کھیتی باڑی کرکے زمین کی پیداوار کا ایک حصہ لیں گے(باقی مسلمانوں کا ہوگا)۔ [یا ہجرت کے موقع  پر ایک مشرک سے راستے کی رہنمائی کرنے کے لیے اجرت پر خدمات حاصل کی تھیں- صحیح بخاری 2267] یہ موالات اور محبت میں سے نہيں ہےبلکہ یہ تو مصلحتوں اور فوائد کا تبادلہ ہے۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم ان باتوں کو اچھی طرح سے سمجھ لیں، یہ بے شک یہ موالات میں نہ داخل ہیں اور نہ ہی ان سے منع کیا گیا ہے۔

اسی طرح ان  سے قرض لینا  بھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ایک یہودی سے کھانا ادھار لیا تھا اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھوائی  تھی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی وفات ہوگئی اور وہ زرہ اسی یہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی اس کھانے کے بدلے میں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنے گھر والوں کے لیے لیا تھا۔ اس میں کوئی حرج نہيں، کیونکہ بلاشبہ یہ  تو دنیاوی امور اور مصلحتیں ہيں جو دلی محبت و مودت پر دلالت نہیں کرتیں ۔ لازم ہے کہ ہم ان دونوں میں فرق کریں کیونکہ بعض لوگ  جب کافروں سے عداوت اور عدم موالات کے نصوص سنتے ہیں تو اس سے کبھی یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ان سے کوئی بھی معاملہ نہیں کیا جاسکتا،  اور ان سے بالکل بھی رابطہ نہیں ہوسکتا، اور ان کا بالکل ہر چیز میں بائیکاٹ ہوگا۔ نہیں! بلکہ یہ صرف ان احکام کے ساتھ مخصوص ہے جن کی حدود و شرائط اہل علم کے ہاں کتاب و سنت سے ماخوذ جانی پہچانی ہیں۔

6- اللہ تعالی نے اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کرنا جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ وہ اپنی عزت کی حفاظت کرنے والی پاکباز ہوں، اور اللہ تعالی نے ہمارے لیے ان کا ذبیحہ بھی جائز قرار دیا ہے۔[المائدۃ: 5]

7- ان کی طرف سے دی گئی دعوت قبول کرنا بھی جائز ہے اور ان کا حلال کھانا بھی جائز ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے کیا تھا۔ (یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی دعوت کی تھی جس میں ان شرپسندوں نے سازش کے تحت زہر بھی ملادیا تھا، اور یہ قصہ مشہور و معروف ہے- صحیح بخاری 4249)۔

8- کافر پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، کیونکہ بلاشبہ ان کے بطور پڑوسی حقوق ہیں۔

9- ان پر ظلم کرنا جائز نہیں ہے، فرمان الہی ہے:

وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا  ۭاِعْدِلُوْا   ۣ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى

اور تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر ہرگز نہ ابھارے کہ تم عدل و انصاف نہ کرو، عدل کرو یہ ہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے[المائدۃ: 8]

[شرح الاصول الثلاثہ ص 66-69]

کتاب الاصول الثلاثہ اور دیگر عقیدے و منہج کی کتب کی اہل علم کی شروحات کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہماری آن لائن ایڈمی کے کورسس جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے واٹس ایپ لنک پر کلک کریں۔

یہاں کلک کریں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے