بسم اللہ الرحمن الرحیم
ضرور آپ کے ساتھ بھی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسا ہوا ہوگا جب سحری کے لیے الارم بجا ہو اور آپ اسے یہ سوچ کر بند کریں کہ بس ابھی اٹھتا ہوں، لیکن۔۔۔کچھ ہی دیر بعد آپ کے آنکھ کھلے اور احساس ہو یہ تو ایک گھنٹہ گزر گیا اور اب سحری ختم ہونے میں صرف ایک دو منٹ باقی ہیں!
اس وقت کیا جذبات ہوتے ہیں، جلدی جلدی کچھ کھالوں کہیں بھوکا پیاسا ہی نہ رہ جاؤں۔
یعنی کامیابی مجھ سے فوت نہ ہوجائے جیسا کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ قیام رمضان سے متعلق مشہور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طویل قیام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہمیں خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں ہم سے فلاح (کامیابی) نہ فوت ہوجائے یعنی سحری کرنا۔
اسی طرح جب ہم قبروں سے اٹھیں گے اور پوچھا جائے گا کتنا عرصہ اس دنیا میں رہے تو کہیں گے: دن یا دن کا کچھ حصہ!
رمضان جو تیزی سے گزر رہا ہے اس کے بارے میں بھی فرمان الہی ہے کہ یہ بس ایام معدودات ہیں یعنی گنتی کے کچھ دن ہیں۔
اور سحری تا افطاری بھی محض کچھ گھنٹوں کا سفر ہوتا ہے۔
لہذا اس محدود زندگی اور عرصے میں ہم روزے سے سیکھے گئے سبق کی طرح اگر اپنے نفس پر قابو پاکر اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے بچ کر اپنے دنیاوی سفر کے اختتام کو پہنچیں تو فلاح ہی فلاح ہے۔
جیسا کہ روزے دار کے افطاری کرتے وقت حدیث مبارک میں ذکر ہے کہ روزے دار کے لیے دو بڑی خوشیاں ہیں ایک دن بھر بھوکا پیاسا رہنے کے بعد افطاری کھانے کی اور دوسری جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا، کیونکہ روزہ ایسی عبادت ہے کہ جس کا ثواب رب سبحانہ وتعالی کے سوا کوئی نہيں جانتا اور جنت کا مخصوص دروازہ “ریان” روزے داروں کے لیے منتظر ہے۔
وقت کی قدر کریں، جو رہ گیا ہے اسے غنیمت جانیں اور اپنی آخرت سنوارنے کی فکر کریں، جس طرح شروع میں میں نے ذکر کیا محض چند منٹ رہ گئے ہوں سحری میں تو ہم جلدی جلدی سب کچھ کرنے کی فکر کرتے ہیں۔
سحری کے وقت جب اللہ تعالی اپنے بندوں کو آسمان دنیا پر نازل ہوکر پکارتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں دوں اور بخشش طلب کرے تو میں بخش دوں۔ کیوں نہ ہم اس سے بخشش طلب کرکے آئندہ کے لیے توفیق مانگیں اور اپنی کمر کس لیں نہ صرف رمضان کے آخری حصے میں شب قدر کو پانے کے لیے محنت کرنے کی خاطر جیسا کہ سنت ہے، بلکہ پوری زندگی اسی طرز پر گزارنے کا عزم کرتے ہوئے۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ اس نیک عزم میں ہماری مدد فرمائے۔