TariqBrohi

سپارے والی آنٹی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عام طور پر ہمارے ہاں بچپن میں جو بچے باقاعدہ مسجد مدرسے قاری صاحب کے پاس قرآن مجید پڑھنے نہيں گئے ہوتےوہ محلے میں مشہور کسی سپارے والی آنٹی کے ہاں پڑھنے جاتے ہيں۔جن کی وجہ سے جس طرح قرآن مجید کی تجوید و ترتیل ہونی چاہیے اس میں انہيں مہارت حاصل نہیں ہوتی۔بلکہ  جس طرح اردو لہجے میں ہم بات کرتے ہیں، عربی اور اردو کے حروف تہجی یکساں ہونے کی وجہ سے اکثر اسی طرح قرآن بھی پڑھنے لگتے ہيں۔ جیسے ض یا ح کی آواز بغیر محنت کے اردو رواں تلفظ کی طرح پڑھتے ہيں۔

          پھر بعض لوگوں کو جوانی میں یا بڑی عمر میں کچھ شعور آتا ہے تو وہ اپنی تجوید بہتر کرنے کے لیے باقاعدہ سیکھے ہوئے قاری یا قاریہ سے اپنی قرآن مجید  کی تلاوت کی درستگی اور تصحیح کے خواہاں ہوتے ہیں۔اللہ انہيں برکت دے، لیکن  اس سلسلے میں بھی کیونکہ اردو میں  وہی تمام حروف تہجی ہیں جو عربی کے ہیں تو ہمارے  ہاں پاکستان انڈیا وغیرہ میں جو تجوید سیکھنا شروع کرتے  ہیں انہیں ایک مسئلہ یہ درپیش ہوجاتا ہے کہ مخارج پر زور دینا پڑتا ہے خصوصاً حروف حلقی یا جیسے ح ع ق وغیرہ۔  نتیجے میں اساتذہ وطلبہ ان پرضرورت سے زیادہ توجہ دیتے ہیں  جس سے وہ باقی جو نارمل حروف ہيں ان پر خاص توجہ نہیں دیتے ، جس کی وجہ سے وہ اسے یونہی اردو جیسا رہنے دیتے ہيں ،حالانکہ ان کے بھی اپنے قواعد اور آواز کی باریکی یا موٹائی یا سیٹی جیسی آواز وغیرہ  قواعد ہوتے ہيں۔

ظاہر ہے ایک ساتھ جلدی جلدی سوچ کر رواں تلاوت میں ان قواعد کو لاگو کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جب تک اتنی زیادہ مشق نہ ہوگئی ہو کہ فطری طور پر وہ ان ہی مخارج کے ساتھ پڑھنا شروع کردیں  اور اس کے لیے انہیں الگ سے سوچنا نہ پڑے۔

اسی طرح صفات میں پھر ادغام  اخفاء وغیرہ نیا نیا سیکھتے ہيں جو اس سے پہلے نہیں کیا کرتے تھے تو پھر ساری توجہ اس پر لگ جاتی ہے تومخارج سے ہٹ جاتی ہے۔

دراصل اس کا توازن سکھانا ضروری ہےاس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ماہر قراء کی تلاوت مسلسل سنتے رہیں، اتنا کہ لاشعور میں وہ بیٹھ ہی جائے، آپ پڑھنے لگیں تو محسوس ہو وہی پڑھ رہے ہيں جو سنتے رہے ہیں۔ تب جاکر یہ چیز روانی کے ساتھ کنٹرول ہوسکتی ہے،ورنہ بیچارے طلبہ تجوید کے بارے میں سوچتے ہی رہتے ہیں کہ یہاں کون سا قاعدہ اپلائی کرناہے۔

Child wearing hijab reading the Quran indoors, symbolizing Islamic culture.

باقی قرآن سمجھ کر پڑھنا تو بعد کا مرحلہ ہے، تجوید پر ہی ساری توجہ لگتی تو غور و تدبر کب کریں گے۔ درحقیقت یہ بہت سے لوگوں کے لیے  ناممکن ہوتا ہے کہ ان کے مخارج بالکل صحیح ہوجائیں کیونکہ ان کی اپنی زبا ن کا لہجہ غالب ہوتا ہے جو بالکل عربی کی طرح نہیں ڈھل سکتا۔ لہذا  دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  تو ایسی محنت کرنے والے کو دوہرے اجر کی خوشخبری سنائی ہے:

الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ، لَهُ أَجْرَانِ

قرآن مجید میں ماہر قاری قرآن مجید پر مقرر معزز ونیک لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ہوگا، اور جو قرآن پڑھتا ہے لیکن اس میں اٹکتا ہے اور وہ اس پر پُرمشقت ہوتا ہے، تو اس کے لیے دوہرااجر ہے۔[1]

دوسری روایت میں فرمایا:

مَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَهُوَ حَافِظٌ لَهُ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَمَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ القرآن وَهُوَ يَتَعَاهَدُهُ وَهُوَ عَلَيْهِ شَدِيدٌ فَلَهُ أَجْرَانِ

اس کی مثال جو قرآن  پڑھتا ہے اور وہ اس کاخوب حافظ ہے قرآن مجید پر مقرر معزز ونیک لکھنے والے فرشتوں کےساتھ ہوگا، اور اس کی مثال جو قرآن بار بار پڑھتا ہے پھر بھی وہ اس کے لیے مشکل ہوتا ہے، تو اس کے لیے دو اجر ہیں۔[2]

چنانچہ بس جتنا ممکن ہو کریں، اللہ  کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ۔ یہاں تو روایتی قاری صاحب مار مار کر حلق سے حلوہ نکلواتے ہیں۔اتنا زیادہ غلو کرتے ہيں کہ قاری صاحب عام باتیں بھی تجوید سے کرنے لگتے ہيں۔

اللہ تعالی سب کے لیے آسانیاں فرمائے۔

 

تجوید اور صحیح تلاوت قرآن سیکھنے کے لیے ابھی رابطہ کریں (ہمارے ہاں خواتین  اور بچوں کے لیے خاتون معلمہ بھی موجود ہیں)

https://linktr.ee/TariqAliBrohi


[1] صحیح مسلم رقم: 1862۔

[2] صحیح بخاری رقم: 4937۔

2 خیالات ”سپارے والی آنٹی“ پر

  1. بہت اچھی اور حقیقت پر مبنی تحریر…. جزاک اللہ خیر استاد محترم… اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کے علم میں برکت عطا فرمائے، آمین

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے